کیا پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا ہے؟
28 نومبر 2022معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت پاکستان کو سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے، امپورٹ بل میں کمی اور ایکسپورٹ میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایسا ماحول ملک میں بنانا ہو گا جس سے بیرونی سرمایہ ملک میں بڑھے اور سرمایہ کار بہتر انداز میں ملک میں کاروبار کر سکیں۔
چوبیس نومبر 2022 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 134 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت مرکزی بینک کے ذخائر 7 ارب 82 کروڑ جبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر 5 ارب 81 کروڑ ڈالر ہیں، جبکہ ملک کے مجموعی ذخائر 13 ارب 64 کروڑ ڈالر ہیں۔
ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی کیا وجوہات ہیں؟
معاشی امور کے ماہر محمد سہیل نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ یہ ایک تشیوشناک صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا براہ راست اثر ملکی کرنسی پر پڑتا ہے۔ اس وقت ملک میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو چیزیں اب انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارہ ( آئی ایم ایف) کی جانب سے اگرپاکستان کو طے شدہ قسط مل جاتی ہے اور پھر دیگر ممالک بھی پاکستان کو پیسہ دے دیتے ہیں تو بہتری ممکن ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر اس میں تاخیر ہوتی ہے تو پھر روپے پر دباؤ مزید بڑھ جائے گا۔ کیونکہ پاکستان کے دوست ممالک سعودی عرب اور چین سے رقم ملنے کا معاملے بھی آئی ایم ایف سے منسلک ہیں۔
محمد سہیل کا کہنا تھا کہ ابھی سکوک بانڈز کی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔اس ادائیگی کے بعد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی واقع ہو گی۔
ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کے بعد کیا پاکستان ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے؟
معاشی ماہر سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت مشکلات میں ضرور ہے لیکن ڈیفالٹ کی صورتحال نہیں ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک کے جاری کردہ اعداد شمار باعث تشویش ہیں، ''بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جانب سے بھیجے گئے ترسیلات زر میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ امپورٹ بل میں اضافہ بھی ملکی معشیت کے لیے اچھی نوید نہیں سناتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی کرنی ہو گی، ''ملکی معیشت کے لیے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ درآمدی بل کو کم اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا۔‘‘
سمیع اللہ طارق نے کہا کہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کا فیصلہ موجودہ ملکی صورتحال میں بہتر نہیں ہے، ''اس سے سرمایہ کاری میں کمی ہو گی اور موجودہ حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔‘‘
معاشی تجزیہ کار اور پاک کویت انویسمنٹ کمپنی کے سی ای او عبدالعظیم نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ معیشت کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ''اس وقت پاکستان کی دیوالیہ ہونے کی صورتحال نہیں ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائز میں کمی ضرور ہوئی ہے لیکن اب بھی کئی ایسے شعبے ہیں، جہاں سے آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا جا سکتا ہے۔‘‘
عبدالعظیم نے کہا کہ پاکستان کو قرض سے زیادہ اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہو گا ،''امپورٹ میں کمی کی جائے اور ایکسپورٹ میں اضافہ کیا جائے۔ یہ براہ راست ملک کے لیے بہتری ہے۔ قرض کی ادائیگی کے ساتھ اس پر سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ اگر ایکسپورٹر کو سہولت دی جائے تو جو ڈالر ملک میں آئیں وہ ملکی معیشت کے لیے بہتر اور دیر پہ فائدہ ہے۔‘‘
کیا وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار موجودہ صورتحال کو بہتر بنا سکتے ہیں؟
سکیورٹیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ظفر پراچہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ڈالر کی بڑھتی قدر میں خبروں کی زینت بننے والے وفاقی وزیر کے بیانات اب پورے ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں، ''ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان سے ڈالر کی اسمگلنگ اور غیر قانونی مارکیٹ کی وجہ سے ملک میں ڈالر کے تین ریٹ چل رہے ہیں۔ اسحاق ڈار نے ڈالر کو 2 سو روپے پر لانے کی بات کی تھی لیکن اس وقت انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 224 روپے ہے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 232 روپے کا فروخت ہو رہا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں یہ ریٹ ہے جبکہ پشاور میں ڈالر کا ریٹ 245 روپے ہے، ''پاکستان سے ڈالر افغانستان جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ میں مسلسل ڈالر کی طلب اور رسد میں فرق دیکھا جا رہا ہے۔ مرکزی بینک سمیت دیگر اداروں کو ملک سے ڈالر کی غیر قانونی باہر منتقلی کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘