1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سائبر حملہ: البانیہ نے ایرانی سفارت کاروں کو ملک سے نکال دیا

8 ستمبر 2022

البانیہ نے جولائی میں ہونے والے سائبر حملے کے لیے ایران کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے بدھ کے روز اس سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ تہران نے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور تیرانا کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4GYbx
 Embassy of Islamic Republic of Iran in Tirana before its staff departure accused of cyber attacks
تصویر: Ani Ruci/DW

نیٹو کے رکن ملک البانیہ نے جولائی میں ہونے والے سائبر حملے کے لیے تہران کو مورد الزام ٹھہراتے ہو ئے بدھ کے روز تمام ایرانی سفارت کاروں اور سفارتی عملے کو 24 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا۔

البانیہ کے وزیر اعظم ایدی راما نے ایک ویڈیو بیان میں کہا، "حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات فوری طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔"

راما کا کہنا تھا، "یہ انتہائی ردعمل سائبر حملے کی سنگینی اور خطرے کے بالکل عین مناسب ہے۔ اس ایرانی حملے سے سرکاری خدمات کو مفلوج کرنے، ڈیجیٹل نظام کو مٹا دینے، ریاستی ریکارڈز کو ہیک کرنے، سرکاری انٹرانیٹ الیکٹرانک مواصلات چوری کرنے اور ملک میں افراتفری اور عدم تحفظ پیدا کرنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔"

قبل ازیں البانوی وزیراعظم ایدی راما نے 15جولائی کو ہونے والے سائبر حملے کی تحقیقات کے بعد ایرانی سفارت کاروں اور سفارت خانہ کے عملہ کو 24 گھنٹے کے اندرملک چھوڑنے کا حکم دیا۔

صنعتی یونٹس پر نیا سائبر حملہ ناکام بنا دیا گیا، ایرانی حکام

البانوی پارلیمان کے ایک رکن نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی حکومت کے پاس ملک کے خلاف سائبرحملے میں ایران کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ البانیہ کی سکیورٹی سروسز نے اس حملے کی ذمے دار ایرانی گروہوں کی نشان دہی کی ہے۔

البانوی وزیراعظم ایدی راما نے ایرانی سفارت کاروں کو 24 گھنٹے کے اندرملک چھوڑنے کا حکم دیا
البانوی وزیراعظم ایدی راما نے ایرانی سفارت کاروں کو 24 گھنٹے کے اندرملک چھوڑنے کا حکم دیاتصویر: Olsi Shehu/AA/picture alliance

ایران کا ردعمل

ایران نے البانیہ میں سائبر حملوں کے پیچھے اس کا ہاتھ ہونے کے الزامات کو "بے بنیاد" قرار دیا۔

ایرانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا البانیہ کا فیصلہ افسوس ناک اور تنگ نظری پر مبنی ہے۔"

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "ایران، جو خود بھی اپنے اہم انفرااسٹرکچر پر مختلف ملکوں کی جانب سے سائبر حملوں کا ایک اہم نشانہ ہے، دیگر ملکوں کے بنیادی انفرااسٹرکچر پر حملے کے لیے سائبر اسپیس کو ایک آلے کے طور پر استعمال کو مسترد اور مذمت کرتا ہے۔"

عالمی سائبر حملوں کے امریکی الزام کی ایران کی جانب سے مذمت

ایران: گیس اسٹیشنوں پر سائبر حملے، ایندھن کی فروخت بری طرح متاثر

امریکا نے دنیا کو ایرانی سائبر حملے سے خبردار کیا

خیال رہے کہ ماضی میں ایران کو متعدد مرتبہ سائبر حملوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ بالخصوص سن 2010 میں ایران کے جوہری پروگرام کو نقصان پہنچانے کے لیے اسٹکس نیٹ وائرس کا استعمال کیا گیا تھا۔ ایران نے اس حملے کے پیچھے اسرائیل اور امریکہ کا ہاتھ بتایا تھا۔

سن 2010 میں ایران کے جوہری پروگرام کو نقصان پہنچانے کے لیے اسٹکس نیٹ وائرس کا استعمال کیا گیا تھا
سن 2010 میں ایران کے جوہری پروگرام کو نقصان پہنچانے کے لیے اسٹکس نیٹ وائرس کا استعمال کیا گیا تھاتصویر: Jochen Tack/IMAGO

امریکہ کا بیان

امریکہ نے سائبر حملے کے لیے البانیہ کی جانب سے ایران کے خلاف الزامات کی تائید کی اور کہا کہ وہ اپنے نیٹو اتحادی پر اشتعال انگیز سائبر حملے کے جواب میں تہران کے خلاف مزید کارروائیاں کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ نے بھی کئی ہفتے کی تحقیقات کے بعد اس سائبر حملے کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ 15جولائی کو "اوچھے اور غیر ذمہ دارانہ"  سائبر حملے کے پیچھے ایران کا ہاتھ  کار فرما تھا۔

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل نے ایک بیان میں کہا کہ "امریکا ایران کو ایسے اقدامات پرجوابدہ بنانے کے لیے مزید کارروائی کرے گا جن سے امریکا کے اتحادی کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو اور سائبر اسپیس کے لیے پریشان کن مثال قائم ہو۔"

برطانیہ کے نیشنل سائبرسکیورٹی سینٹر نے بھی البانوی حکومت کے خلاف سائبر حملے کے لیے ایران کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور کہا کہ ایرانی ریاست سے وابستہ اہلکار "قریباً یقینی طورپر" اس اوچھے حملے کے ذمے دار ہیں۔

خیال رہے کہ ایران اور البانیہ کے درمیان سن 2014 سے تعلقات کشیدہ ہیں جب تیرانا نے ایرانی جلاوطن اپوزیشن گروپ مجاہدین خلق کے تقریباً 3000 اراکین کو پناہ دی تھی۔

 ج ا/ ص ز (اے ایف پی)