فروری کے انتخابات میں سترہ لاکھ سے زائد مسترد ووٹ،گیلپ رپورٹ
13 مارچ 2024گیلپ پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق 2024 ء کے عام انتخابات میں سترہ لاکھ تینتیس ہزار چار سو اننچاس ووٹ مسترد ہوئے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ مسترد شدہ ووٹ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پہ دھاندلی ہوئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ان مسترد شدہ ووٹوں میں سے زیادہ تر ووٹس وہ ہیں جو تحریک انصاف کے ووٹرز نے اپنے نمائندوں کو دیے تھے۔ تاہم پاکستان میں انتخابات کے انعقاد پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ووٹ کا مسترد ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
مسترد کردہ ووٹس
گیلپ پاکستان کے سربراہ بلال گیلانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ڈیٹا کے مطابق دوہزار چوبیس کے عام انتخابات میں چھ کروڑ، 57 لاکھ، تین ہزار، 345 ووٹ پڑے تھے، جس میں سے 17 لاکھ، 33 ہزار، 449 مسترد ہوئے جس کی شرح تقریباً دو اعشاریہ چھیاسی فیصد بنتی ہے۔
بلال گیلانی کے مطابق 2018 ء کے انتخابات میں یہ شرح تین اشاریہ 16 فیصد تھی۔ 2013 ء میں تین اعشاریہ 24 فیصد جبکہ 2008 میں دو اعشاریہ آٹھ فیصد تھی۔
پی ٹی آئی کا ردعمل
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور اراکین اسمبلی اس انکشاف پر غصے میں پھٹ پڑے اور ان کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پہ ووٹ کو مسترد کیا جانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پہ دھاندلی ہوئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار کا کہنا ہے پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ملک کا آئین معطل نظر آتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یقینا ہم مطالبہ کریں گے کہ اس کی غیر جانبدار مانیٹرز سے تحقیقات کرائی جائیں لیکن مجھے شک ہے کہ آئین کی پامالی کرنے والے اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونے نہیں دیں گے۔‘‘
پی ٹی آئی کی سابق رکن قومی اسمبلی کنول شوزب کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی شہربانو قریشی کے حلقے میں ووٹوں کو مسترد کرنے کا ریکارڈ قائم کیا گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے حلقے میں بھی مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور اس کا مقصد بڑے پیمانے پر دھاندلی کے سوا کچھ نہیں تھا۔‘‘
مسترد شدہ ووٹس پی ٹی آئی کے تھے
عمران خان کے وکیل شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ ان مسترد کیے گئے ووٹوں میں بڑی تعداد پی ٹی آئی کے ووٹرز کی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ووٹرز بڑی تعداد میں باہر نکلے اور انہوں نے سارے اندازے غلط ثابت کیے لیکن فارم 45 پر ٹیمپرنگ کر کے ان کو ہرایا
گیا۔‘‘
شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ پارٹی اس کے اور فارم پینتالیس کے مسئلے پر سپریم کورٹ جارہی ہے۔
پنجاب سے پی ٹی آئی کے سابق رکن پنجاب اسمبلی مہندر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹر باشعور ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر ووٹوں کو مسترد کیے جانے کا عمل سمجھ سے باہر ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لودھراں میں ہماری ایک نامزد امیدوار عفت سومرو عین وقت پر جہانگیر ترین کے حق میں دستبردار ہو گئی۔ پارٹی نے صرف 36 گھنٹے پہلے راؤ قاسم کو نامزد کیا اور اس نے 50 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے۔‘‘
مہندر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز نے اپنے امیدواروں کے انتخابی نشان رٹ لیے تھے۔ ''تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ ڈبل مہر لگا کر پی ٹی آئی کا ووٹ ضائع کریں۔‘‘
مسترد ووٹوں کا انکشاف انہونی نہیں ہے
تاہم انتخابات کے عمل سے گہری واقفیت رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے اس دعوے کو نامناسب قرار دیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر مسترد شدہ ووٹوں کا انکشاف کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جتنے ووٹ مسترد ہوئے ہیں وہ پچھلے انتخابات کی نسبت کچھ کم ہیں۔ اگر اتنے بڑے پیمانے پہ ووٹ مسترد ہوئے ہیں تو اس کا الزام الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ اس میں ملوث نہیں ہو سکتا۔‘‘
کنور دلشاد کے مطابق پولنگ اسٹیشن میں کئی مقامات پر کیمرے نصب ہوتے ہیں۔ ''جبکہ سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس بھی وہاں موجود ہوتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ یہ ڈبل مہریں ای سی پی کے لوگوں نے لگا دی ہوں گی بالکل غلط ہے۔‘‘
ووٹرز کا غصہ
کنوردلشاد کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ ووٹر کا غصہ ہوتا ہے۔ ''میرا اپنا یہ خیال ہے کہ بہت سارے ووٹرز غصے میں ہوتے ہیں کہ سارے سیاستدان کرپٹ ہیں اور یہ کہ ان کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ تو وہ غصے کا اظہار کرتے ہوئے ڈبل مہر لگا کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے لیے یہ انتخابات کوئی معنی نہیں رکھتے۔‘‘
کیا اس کو روکا جا سکتا ہے؟
پاکستان میں انتخابات کو شفاف بنانے کے حوالے سے کئی بار مختلف تجاویز آئیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوا۔ ملک میں سن 1970 کے عام انتخابات کے علاوہ کوئی ایسے انتخابات نہیں ہیں جن کو مشکوک قرار نہ دیا گیا ہو۔
ماضی میں پاکستان تحریک انصاف نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم نافذ کرنے کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہیں ہو سکی۔
شندانہ گلزار کا کہنا ہے کہ اس کو روکنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کی جائیں۔
تاہم کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ بیلٹ پیپر پر ایک اور آپشن کا اضافہ کیا جانا چاہیے۔ ''ہم نے اپنے دور میں یہ تجویز کیا تھا کہ بیلٹ پیپر پر یہ بھی ایک آپشن لکھ دیا جائے کہ ووٹر مندرجہ بالا امیدواروں میں سے کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہتا۔ اس بات پر سیاسی جماعتیں بھی متفق تھیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔‘‘
کنوردلشاد کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے اس فارمولے پہ عمل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،''اس کے بعد بھارت نے بھی اس کو اپنایا ہے۔ اگر ہم اسے اپنا لیں تو پھر ووٹر اس آپشن کا انتخاب کر کے اپنا غصہ سیاست دانوں کے خلاف نکال سکتا ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے ن لیگ اور ای سی پی دونوں سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے ڈی ڈبلیو کے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔