سعودی عرب میں مبینہ پولیس تشدد سے دو پاکستانی خواجہ سرا ہلاک
2 مارچ 2017پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک فیس بک پیج، ’ٹرانس ایکشن پاکستان‘ پر خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی صدر فرزانہ نے ایک ویڈیو شائع کی ہے جس میں وہ یہ الزام عائد کرتی ہیں کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی دو ٹرانس جینڈر خواتین کو سعودی پولیس نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ اس ویڈیو میں فرزانہ کہتی ہیں، ’’سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پولیس نے 35 خواجہ سراؤں کو گرفتار کیا اور پھر انہیں بوریوں میں بند کر کے پیٹا گیا۔ اس تشدد کے باعث دو خواجہ سراؤں کی موت واقع ہو گئی۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک کارکن قمر نسیم نے بتایا کہ یہ افراد ’گرو چیلا چلن‘ نامی ایک اجتماع کے لیے جمع تھے۔ اس تقریب میں خواجہ سرا اپنے گرو کا انتخاب کرتے ہیں۔ قمر نسیم نے بتایا، ’’ ایک خواجہ سرا کا نام آمنہ تھا، جس کا تعلق مینگورا سے تھا اور دوسرے کا نام مینو تھا، جس کا تعلق پشاور سے تھا۔‘‘ قمر نسیم نے بتایا کہ سعودی پولیس کی جانب سے 35 خواجہ سراؤں میں سے 11 کو ڈیڑھ لاکھ سعودی ریال جرمانے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا، ’’ہمیں خدشہ ہے کہ ان خواجہ سراؤں کو ہم جنس پرستی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا، حالانہ یہ افراد خواجہ سرا ہیں نہ کہ ہم جنس پرست۔‘‘ قمر نسیم کی رائے میں یہ بھی ممکن ہے کہ ان افراد کو خواتین کے لباس پہننے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہو۔
سعودی پولیس کی جانب سے پہلے گرفتار اور پھر رہا کر دیے جانے والے خواجہ سراؤں کے بارے میں قمر نسیم نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔