سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی، برطانیہ تنقید کی زد میں
17 دسمبر 2015'کنٹرول آرمز‘ نامی اتحاد کا کہنا ہے کہ اس نے سعودی عرب اور برطانیہ کے مابین اسلحہ ڈیل پر قانونی مشاورت حاصل کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ڈیل عالمی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ تاہم برطانوی حکومت نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تمام تر عالمی معاہدوں کی پاس داری کر رہی ہے۔
'کنٹرول آرمز‘ میں انسانی حقوق کے متعدد بین الاقوامی ادارے بھی شامل ہیں، جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، آوکسفیم اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل بھی شامل ہیں۔ ’کنٹرول آرمز‘ نے جس قانونی فرم سے مشاورت حاصل کی ہے، اس کے مطابق ریاض حکومت یمن میں شہریوں کو مبینہ طور پر براہ راست نشانہ بنانے کی مرتکب ہوئی ہے۔
یمن میں فعال ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عسکری اتحاد کی کارروائی رواں برس مارچ سے جاری ہے۔ اس دوران کم ازکم چھ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر شہری ہی بتائے جاتے ہیں۔
ماہر قانون دان فلیپے سانڈز کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو فوجی سازوسامان فراہم کرنے سے ’آرمز ٹریڈ ٹریٹی‘ کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے کیونکہ اس ٹریٹی میں زور دیا گیا ہے کہ ایسے کسی ملک کو اسحلہ فراہم نہ کیا جائے، جس پر یہ شک بھی ہو کہ وہ یہ اسلحہ شہریوں کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔
'آرمز ٹریڈ ٹریٹی‘ گزشتہ برس نافذ العمل ہوئی تھی اور برطانیہ نے اس کی منظوری کے لیے انتہائی فعال انداز میں وکلالت کی تھی۔ ’کنٹرول آرمز‘ کا کہنا ہے کہ اگر لندن حکومت سعودی عرب کے لیے اسلحہ روانہ کرتی رہے گی تو وہ دانستہ طور پر اس ٹریٹی کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو گی۔
'کنٹرول آرمز‘ نے سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کی ڈیلوں پر جرمنی، اٹلی، فرانس، بلیجیم اور چیک ری پبلک کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ تاہم اس نے سعودی عرب کو سب سے زیادہ فوجی سازوسامان مہیا کرنے والے ملک امریکا کی بات نہیں کی ہے۔ واضح رہے کہ امریکا ’آرمز ٹریڈ ٹریٹی‘ کا رکن نہیں ہے۔ واشنگٹن نے اس معاہدے پر دستخط تو کیے ہیں لیکن ابھی تک اس کی توثیق نہیں کی ہے۔