سیلابی پانی برسبین سٹی سینٹر میں داخل ہو گیا
13 جنوری 2011کوئینزلینڈ کے مرکزی شہر برسبین سے گزرنے والے دریائے برسبین میں جمعرات کی صبح پانی کی سطح 4.46 میٹر تھی جو 1974ء کے سیلاب کے مقابلے میں ایک میٹر کم ہے۔ حالانکہ شہر کے مختلف علاقے زیر آب ہیں، پھر بھی بیشتر متاثرین نے پانی کی سطح ریکارڈ لیول تک نہ پہنچنے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
اس پر ریاستی وزیر اعلیٰ Anna Bligh نے کہا، آج یہاں کہانی کی نوعیت ملی جلی ہے۔ کچھ سکون بھی ہے، میں قدرت کی شکرگزار ہوں کہ وہ اتنی نامہربان نہیں رہی، جتنی ہو سکتی تھی۔ پھر بھی اس شہر میں لوگوں کی آنکھ کھلی تو انہوں نے تباہی دیکھی ہے، انہیں اپنے گھروں یا کاروبار کی تباہی دیکھنے کو ملی ہے۔‘
اینا بلائی نے کہا، ’ناقابل یقین تباہی دیکھی گئی ہے، شہر کا پورے کا پورے نواحی علاقہ پانی میں ڈوب گیا ہے، صرف چھتیں نظر آ رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سب صنعتی پارکس، ریلوے اسٹیشن، سڑکیں اور پل بند پڑے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال ابھی تک بہت خطرناک ہے ۔
وزیر اعلیٰ بلائی کے بقول، ’ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قدرت نے بہت تباہی بھی پھیلائی ہے۔ اس وقت لوگ جن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، میں انہیں کسی جنگ کے بعد کی صورت حال سے تعبیر کروں گی۔‘
اس خطے میں گزشتہ تین روز کے دوران ہلاک ہونے والے 14 افراد میں سے ایک کا تعلق برسبین سے تھا۔ ریاستی سربراہ حکومت نے اس 24 سالہ شخص کی ہلاکت کو سیلاب سے متعلقہ حادثات میں برسبین میں ہونے والی پہلی موت قرار دیا۔
اُدھر اُبلتے ہوئے دریائے برسبین میں پانی کی سطح دھیرے دھیرے کم ہو رہی ہے۔
برسبین میں اسٹیمفورڈ پلازہ ہوٹل کے سکیورٹی ڈائریکٹر جان میکلوڈ نے بتایا، ’1974ء کا سیلاب اس سے زیادہ خطرناک تھا، بہت زیادہ خطرناک۔‘
یہ ہوٹل شہر کے مرکز میں دریائے برسبین کے ساتھ ہی واقع ہے اور سیلاب کی وجہ سے بند پڑا ہے۔ میکلوڈ نے کہا، ’گزشتہ شب میں صرف ایک گھنٹہ سو پایا، ہوٹل کے تہہ خانے تک میں پانی کی گہرائی ساڑھے تین میٹر بنتی ہے۔‘
کوئینزلینڈ میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کا سلسلہ گزشتہ برس نومبر میں شروع ہوا تھا۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق تب سے وہاں 23 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک