شام میں امریکی اور فرانسیسی سفارت خانوں پر حملے
12 جولائی 2011اطلاعات کے مطابق فرانس اور امریکہ کے خلاف شامی صدر بشار الاسد کے حامیوں کے غصے کی اصل وجہ ان دونوں ممالک کی جانب سے شام میں جمہوریت کے لیے چلنے والی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے۔ ساتھ ہی ان دونوں ممالک کے سفیروں نے حما شہر میں حکومت مخالفین سے ملاقات بھی کی تھی۔ حما شام کا وہ شہر ہے، جہاں سے صدر بشار الاسد کے خلاف اب بھی مظاہرے جاری ہیں۔
فرانسیسی سفارت خانے کی حفاظت پر مامور اہلکاروں نے فائرنگ کرتے ہوئے حملہ آوروں کو بھاگنے پر مجبور کیا۔ ساتھ ہی امریکی سفیر کی رہائش گاہ کے حفاظتی گارڈز نے بروقت کارروائی کر کے حملہ ناکام بنایا۔ سفارتی ذرائع نے بتایا کہ اس دوران کوئی بھی شخص ہلاک یازخمی نہیں ہوا۔ امریکی اور فرانسیسی ذرائع کے مطابق یہ حملے جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی تحریک کی حمایت کے رد عمل کے طور پر کیے گئے ہیں۔ چار روز قبل ہی ان دونوں ممالک کے سفیروں نے حما شہر کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت بھی حما میں بشار الاسد کے ہزاروں مخالفین حکومتی دستوں کی موجودگی کے باوجود سراپا احتجاج ہیں۔
امریکہ نے شام کے نمائندے کو وزارت خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ اسی طرح فرانسیسی حکومت نے بھی اس حملے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ برلن حکام نے ان دونوں ممالک سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کے حملے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہیں۔
امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک نے بشار الاسد کی جانب سے احتجاجی تحریک کے خلاف طاقت کے استعمال کو تنقیدکا نشانہ بنایا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق حکومت کی جانب سے کی جانے والی کارروائی میں اب تک 1400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: شادی خان سیف