شام میں مزید 13 مظاہرین ہلاک، امریکی سفیر حما شہر میں
9 جولائی 2011انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے ضمیر کے ساتھ ساتھ شام کے مختلف علاقوں میں جمعے کے روز سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے 13 مظاہرین ہلاک ہو گئے۔
مظاہروں کے حوالے سے دارالحکومت دمشق کے شمال میں واقع حما شہر انتہائی اہم ہے، جہاں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اور بڑے مظاہرے دیکھنے میں آ ئے ہیں۔ بشار الاسد حکومت نے رواں ہفتے حما شہر کے باہر ٹینک تعینات کر دیے تھے۔ یہ وہی شہر ہے، جہاں 30 برس قبل بشار الاسد کے والد اور اس وقت کے صدر حافظ الاسد نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں حما شہر کے مرکزی چوک پر جمع ہزاروں افراد نے شام کے بڑے بڑے پرچم تھام رکھے تھے۔ یہ افراد باآواز بلند ’’عوام موجودہ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
مظاہرین سے ہمدردی اور یکجہتی کے اظہار کے طور پر امریکی سفیر رابرٹ فورڈ اور فرانسیسی سفیر Eric Chevallier نے حما شہر کا دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد بشار الاسد حکومت پر شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن روکنے کے لیے دباؤ میں اضافے کی امریکی کوشش بتایا گیا ہے۔
شامی حکومت کی جانب سے فورڈ کے اس دورے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دمشق حکومت کے مطابق اس دورے سے یہ بات واضح ہے کہ واشنگٹن حکومت 15 ہفتوں سے جاری ان مظاہروں میں کردار ادا کر رہی ہے۔
شام کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ امریکی سفیر فورڈ نے ’مظاہروں کے منصوبہ سازوں‘ سے ملاقات میں انہیں قومی بات چیت میں شامل نہ ہونے اور ’پرتشدد مظاہرے‘ جاری رکھنے کے لیے کہا۔ حکام کے مطابق شام میں قومی سطح کا یہ ڈائیلاگ اتوار کے روز سے شروع ہونا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے دمشق حکومت کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب رابرٹ فورڈ حما میں داخل ہوئے، تو مظاہرین نے فورڈ کی کار کو اپنے حصار میں لے لیا، ان پر زیتون کی پتیاں نچھاور کیں اور ملکی حکومت کے خاتمے کے لیے نعرے لگائے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک