شمالی وزیرستان میں بم دھماکا، تین فوجی ہلاک
24 دسمبر 2017پاکستانی حکام کے مطابق سڑک کنارے نصب یہ بم اس وقت پھٹا جب یہ سکیورٹی اہلکار غلام خان نامی گاؤں میں بموں کی تلاش اور انہیں ناکارہ بنانے میں مصروف تھے۔ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج گزشتہ کئی ماہ سے عسکری آپریشن میں مصروف ہے۔ اس قبائلی علاقے کو ایک عرصے تک شدت پسندوں کا مضبوط گڑھ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
جماعتِ احرار میں ایک نیا گروپ، کیا عسکریت پسند کمزور ہورہے ہیں؟
مستونگ میں ’داعش کے منظم ٹھکانے کا منصوبہ‘ ناکام بنا دیا گیا
’سوات کی چھاؤنی کی تعمیر نو کی بنیاد‘
بتایا گیا ہے کہ نیم فوجی ایف سی دستوں کے یہ ارکان ایک فوجی قافلے کے گزرنے سے قبل علاقے میں نصب ممکنہ بموں کی تلاش کا کام کر رہے تھے۔ ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’غلام خان گاؤں میں دیسی ساخت کا ایک بم پھٹنے کے نتیجے میں تین فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ ‘‘
مقامی خفیہ اہلکاروں نے بھی اس واقعے اور ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے، تاہم شمالی وزیرستان تک میڈیا اداروں اور صحافیوں کی رسائی ممکن نہیں، اس لیے ان اطلاعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی۔
اے ایف پی نے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس واقعے کے بعد غلام خان گاؤں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور علاقے میں موجود ممکنہ عسکریت پسندوں کی تلاش جاری ہے۔ حکام کو شبہ ہے کہ یہ بم نصب کرنے والے عسکریت پسند ممکنہ طور پر ابھی تک اسی علاقے میں موجود ہو سکتے ہیں۔
ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی بھی گروپ یا تنظیم نے قبول نہیں کی، تاہم ماضی میں اس طرح کے حملوں میں طالبان ملوث رہے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ شمال مغربی قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے بعد حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، تاہم اب بھی شدت پسند گروپ ہلاکت خیز حملوں کی سکت رکھتے ہیں۔
حالیہ چند ہفتوں میں شمال مغربی قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ صوبہ بلوچستان میں بھی دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی یہ تازہ لہر ایک ایسے موقع پر دیکھی جا رہی ہے، جب شمالی وزیرستان میں عسکری آپریشن کے بعد بے گھر ہونے والے افراد فوج کی جانب سے یہ علاقہ محفوظ قرار دیے جانے پر اب واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔