طاقتور شیعہ رہنما کا سنی خلیجی ممالک کا دورہ کیا رنگ لاے گا؟
16 اگست 2017خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق عراقی شیعہ مذہبی رہنما مقتدی الصدر نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دوروں کے دوران متعلقہ ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ علاقائی صورتحال پر گفتگو کی۔ مقتدی الصدر ایک عشرے قبل عراق جنگ میں اپنے حامیوں پر زور دیتے تھے کہ وہ امریکی افواج کو نشانہ بنائیں جبکہ یہ خیال بھی عام ہے کہ وہ ایران نواز ہیں۔
عراقی شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کا سعودی عرب کا غیر عمومی دورہ
عراقی حکومت تنازعات کی دلدل میں دھنستی ہوئی
تاہم حالیہ کچھ عرصے میں مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ بالخصوص عراق میں داعش کے جہادیوں کے خلاف ایران نواز ملیشیا عراقی فورسز کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہیں۔ اس صورتحال میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مقتدی الصدر سیاسی محاذ پر اپنی بین الاقوامی حمایت بڑھانے کی کوشش میں ہیں۔ آئندہ برس عراق میں پارلیمانی انتخابات ہونا ہیں اور اس سے قبل مقتدی الصدر ملکی اور عالمی سطح پر رابطہ کاری بڑھا چکے ہیں۔
مقتدی الصدر اور خلیجی عرب ممالک کے اتحاد کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ ابھی تک معلوم نہیں لیکن اس شیعہ رہنما اور سنی ممالک کے حکمرانوں کے مابین ہونے والی ملاقاتوں کی تصاویر میڈیا پر دھوم مچا چکی ہیں۔ اس تناظر میں ایران کے اخبار کیھان نے لکھا، ’’الصدر کو خود کو السعود کو فروخت کرنے کی ضرورت آخر کیوں پڑی؟‘‘ کٹر نظریات کے حامل اس اخبار نے مزید لکھا کہ اگر الصدر نے اس روِش کو برقرار رکھا تو ’ان کی مقبولیت گر جائے گی اور وہ تنہا ہو جائیں گے‘۔
الصدر نے تین جولائی کو سعودی عرب میں کراؤن پرنس محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی۔ بعد ازاں ان دونوں رہنماؤں کی ایک تصویر بھی جاری کی گئی تھی، جس میں ایک خوشگوار ماحول نمایاں تھا۔ ساتھ ہی ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ان دونوں رہنماؤں نے عراق کی داخلی صورتحال کے علاوہ علاقائی حالات اور مشترکہ مفادات پر بھی گفتگو کی۔
سعودی عرب کے اس دورے کے بعد اتوار کے دن مقتدی الصدر نے متحدہ عرب امارات میں دبئی کے طاقتور پرنس شیخ محمد بن زايد آل نهيان سے ملاقات کی۔ بعد ازاں پرنس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’تجربات ہمیں سکھاتے ہیں کہ عرب اور مسلمانوں میں اتحاد کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں تقسیم کی وکلالت کرنے والوں کو رد کر دینا چاہیے۔‘‘
سابق امریکی خفیہ ایجنٹ لوری پلاٹکن بوگہارٹ نے اے پی سے گفتگو میں کہا، ’’یہ ایک بڑا سوال ہے کہ عراق میں استحکام کیسے لایا جائے اور وہاں ایران کے اثرورسوخ کو کس طرح کم کیا جائے۔ آج کل ’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی‘ سے وابستہ بوگہارٹ نے مزید کہا کہ سعودی اور اماراتی حکام کی طرف سے مقتدی الصدر جیسی کسی شخصیت سے مراسم بڑھانا، اس سوال کا ایک جواب ہو سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ شیعہ رہنما الصدر کو عراق میں بڑی سطح پر عوامی حمایت بھی حاصل ہے اور ناقدین کے مطابق وہ ملکی سیاسی منظر نامے کو بدلنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔