طالبان سے مکالمت میں ثالثی: کابل کی سمیع الحق سے مدد کی اپیل
2 اکتوبر 2018پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے منگل دو اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق امریکا پر ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں اور پھر اسی سال کے اواخر میں کابل میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے افغانستان کی موجودہ جنگ اس وقت اپنے سترہویں سال میں ہے اور کابل حکومت کی کوشش ہے کہ کسی طرح افغان طالبان کو اب مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔
اس حوالے سے پاکستان کے ایک سرکردہ مذہبی سیاستدان مولانا سمیع الحق کی طرف سے اب یہ کہا گیا ہے کہ کابل حکومت نے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ افغان حکومت اور وہاں مسلح مزاحمت کرنے والے طالبان عسکریت پسندوں کے مابین بات چیت کی کوششوں میں ثالث کا کردار ادا کریں۔
مولانا سمیع الحق، جو ماضی میں پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یا سینیٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں، دارالعلوم حقانیہ کے نام سے عشروں سے وہ بہت بڑا مذہبی مدرسہ بھی چلاتے ہیں، جو پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں اکوڑہ خٹک کے مقام پر افغان سرحد کے قریب واقع ہے۔ افغان طالبان کے بہت سے جنگجو ماضی میں اسی مدرسے میں زیرتعلیم رہے ہیں۔
اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے اسلامی مدرسے کی انتظامیہ کی طرف سے منگل کے روز بتایا گیا کہ افغانستان سے آنے والے ایک وفد نے کل پیر یکم اکتوبر کی رات اس پاکستانی مذہبی سیاسی رہنما سے ملاقات کی۔
دارالعلوم حقانیہ کے مطابق مولانا سمیع الحق نے اس وفد کے ارکان کو بتایا کہ وہ خود بھی یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ’لڑائی اور خونریزی ختم ہونا چاہیے اور اسلام کی برتری کے ساتھ اس ملک کی آزادی بحال ہونا چاہیے‘۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق اس ملاقات میں مولانا سمیع الحق نے یہ مشورہ بھی دیا کہ شروع میں افغان مذہبی رہنماؤں اور طالبان کے مابین ایک خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا جانا چاہیے، جس میں ’امریکا اور پاکستان کی کوئی مداخلت نہ ہو‘۔
جس افغان وفد نے مولانا سمیع الحق سے یکم اکتوبر کی رات ملاقات کی، اس میں افغان صوبے ننگرہار کے سابق گورنر عطااللہ لودین، کابل حکومت کی قائم کردہ امن کمیٹی کے رکن قاسم حلیمی اور کئی دیگر نمایاں شخصیات شامل تھیں۔
م م / ا ا / اے پی