طالبان ملک میں انسانی حقوق کو یقینی بنائیں، اقوام متحدہ
10 دسمبر 202310 دسمبر 2023ء کو انسانی حقوق کا عالمی دن اور اقوام متحدہ کی طرف سےانسانی حقوق کے اعلامیے کی 75 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر افغانستان میں موجود اقوام متحدہ کے مشن نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان کو اپنے ملک میں انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھانا چاہیے۔
2021 ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے بنیادی حقوق کو تقریباﹰ ختم کر دیا ہے جس سے سب سے زیادہ متاثر خواتین اور لڑکیوں کی آزادی ہوئی ہے۔ ان پر زیادہ تر عوامی مقامات اور روزمرہ کی زندگی میں اپنا کردار ادا کرنے پر پابندیاں ہیں۔ افغانستان میں انسانی حقوق، خاص طور پر لڑکیوں اور خواتین کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھے جانے پر طالبان حکومت کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔
افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال
اقوام متحدہ کے افغانستان متعینہ مشن کی طرف سے موجودہ کابل حکومت سے انسانی حقوق سے متعلق ذمہ داریاں پورا کرنے کا مطالبہ دہرانا دراصل طالبان کی ناکامیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ افغانستان میں تعینات اقوام متحدہ کے مشن نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہندو کش کی اس ریاست میں انسانی حقوق کی صورتحال کے تناظر میں ماورائے عدالت قتل، تشدد اور ناروا سلوک، جسمانی سزا، صوابدیدی گرفتاری اور نظربندی اور نظربند افراد کے حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کے ریکارڈ مرتب کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس مشن کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ افغانستان میں جو لوگ انسانی حقوق کے دفاع میں بات کرتے ہیں انہیں گرفتاری، حراست، دھمکیوں اور سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی نمائندہ فیونا فرازر کہتی ہیں، ''ہم افغانستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم افراد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ یہ محافظ اقوام متحدہ کے یونیورسل ڈیکلریشن کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھنے کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘‘
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کہا، '' اس ملک کے مستقبل کی خوشحالی، ہم آہنگی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے انسانی حقوق کو برقرار رکھنا ہوگا۔‘‘
طالبان عہدیداروں پر امریکی پابندیاں
یاد رہے کہ گزشتہ جمعے کو امریکہ نے طالبان کے دو عہدیداروں پر افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان میں سے ایک فرید الدین محمود ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹکے مطابق انہوں نے خواتین اور لڑکیوں پر متعلقہ پابندیاں عائد کرنے کی وکالت کرتے ہوئے چھٹی جماعت کے بعد خواتین اور لڑکیوں کے تعلیمی مراکز اور اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
امریکی پابندیوں کا دوسرا ہدف خالد حنفی ہیں جن کا تعلق افغانستان کی نیکی کی تبلیغ اور بُرائی سے روک تھام کی وزارت MPVPV سے ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس بارے میں کہا، ''اگست 2021ء کے بعد سے، MPVPV کے اراکین نے سنجیدہ نوعیت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بشمول اغوا، کوڑے، اور مار پیٹ کی کارروائیاں کیں۔ مزید براں اس وزارت سے تعلق رکھنے والوں نے خواتین کی سرگرمیوں بشمول
تعلیم تک ان کی رسائی پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں پر حملے کیے۔‘‘
پابندیوں پر طالبان کی مذمت
افغان طالبان نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے مذکورہ افراد پر لگائی گئی پابندیوں کی مذمت کی ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دباؤ اور پابندیاں کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ امریکہ اسرائیل کی حمایت کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''دوسرے لوگوں پر خلاف ورزی کا الزام لگا کر ان پر پابندیاں عائد کرنا بلا جواز اور غیر منطقی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ اس ضمن میں افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاںافغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
ک م/ا ب ا (اے پی)