طالبان کے ساتھ مذاکرات کا امکان اور امریکی وزیر دفاع کا دورہ
13 مارچ 2018افغانستان کے دارالحکومت پہنچ کر جیمز میٹس نے کہا کہ ایسے امکانات ہیں کہ طالبان کے بعض عناصر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کو وقت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور اگر اس عمل میں یپش رفت ہوتی ہے تو یہ مصالحتی عمل کی جانب ایک بڑی جست ہو گی۔
افغان صدر اشرف غنی نے دو ہفتے قبل طالبان عسکریت پسندوں کے لیے امن مذاکرات کے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ بظاہر اس پلان پر طالبان کی جانب سے ابھی تک کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ڈرون حملہ، مُلا فضل اللہ کا بیٹا ہلاک
پاکستان اور افغان طالبان کے لئے امریکا کا نرم گوشہ
افغانستان ميں فوجيوں کی تعداد بڑھائی جائے گی، جرمن وزير دفاع
امریکی وزیر دفاع نے خیال ظاہر کیا ہے کہ طالبان اس مذاکراتی عمل میں شاید پوری طرح شریک نہ ہوں لیکن مذاکراتی منصوبہ افغان حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطے کا پُل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بعض طالبان رہنماؤں کے اندر امن مذاکراتی عمل میں شریک ہونے کی رضا پائی جاتی ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اشرف غنی نے امن مذاکراتی پلان پیش کر کے حقیقت میں طالبان کو ایک سیاسی فریق اور جماعت کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ قطعاً مذاکرات نہیں کریں گے البتہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کا امکان موجود ہے۔
طالبان کے امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے اشارے پر وزیر دفاع جیمز میٹس کا کہنا ہے کہ اس وقت واشنگٹن حکومت کی خواہش ہے کہ کسی بھی مذاکراتی عمل میں افغان حکومت پہلے شریک ہو تا کہ مصالحت کے امکانات واضح ہو سکیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سولہ برس کے مسلح تنازعے میں امریکا پہلی مرتبہ محسوس کر رہا ہے کہ افغان جنگ میں فتح اب قریب ہے۔
افغان جنگ میں فتح کے امکانات کی وضاحت کرتے ہوئے جیمز میٹس نے کہا کہ افغان تنازعے میں جب اس ملک کی حکومت، افغان عوام اور کابل حکومت کی سکیورٹی فورسز شریک ہو کر قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے سلامتی کے خطرات میں کمی واقع ہو گی۔
امریکی وزیر دفاع نے واضح کیا کہ امن مذاکرات کی ان کوششوں میں بین الاقوامی تعاون اور امداد و حمایت بھی شامل رہے گی۔ میٹس نے صاف و شفاف اندازا میں کہا کہ موجودہ امریکی حکومت سیاسی مصالحت پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور وہ عسکری کامیابی پر یقین نہیں رکھتی۔