طب کا امسالہ نوبل انعام جاپانی ماہر حیاتیات اوسومی کے لیے
3 اکتوبر 2016سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہولم میں پیر تین اکتوبر کو اس سال کے طب کے نوبل انعام کے حقدار سائنسدان کے نام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ 2016ء کا میڈیسن کا نوبل پرائز جاپان کے یوشینوری اوسومی کو دیا جائے گا۔
71 سالہ جاپانی بیالوجسٹ اوسومی نے اس بارے میں انتہائی اہم حقائق دریافت کیے کہ زندہ خلیات کس طرح اپنی شکست و ریخت سے ہونے والے نقصان کے بعد ری سائیکلنگ کے ذریعے اپنے مختلف اجزاء کے ازالے کے ساتھ دوبارہ خود کو صحت مند بنا لیتے ہیں۔
ماہرین کے نزدیک یہ حیاتیاتی طریقہٴ کار، جسے ’آٹوفیجی‘ یا لغوی طور پر ’خود کو کھا لینا‘ کہتے ہیں، دراصل خلیاتی سطح پر ’کوڑے کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگا دینے‘ کا ایک ایسا نظام ہے، جس کا مطالعہ مستقبل میں سرطان، الزائمر اور کئی دوسری بیماریوں کے علاج دریافت کرنے میں سائنسدانوں کے لیے بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
سٹاک ہولم کے کارولِنسکا انسٹیٹیوٹ کے مطابق یوشینوری اوسومی کو اس سال کا نوبل انعام برائے طب دینے کا فیصلہ دراصل ان کی اس ریسرچ کی اہمیت اور اس کے غیر معمولی نتائج کا اعتراف ہے، جو اوسومی نے ’شاندار تجربات‘ کی صورت میں 1990ء کی دہائی میں شروع کی تھی۔
نوبل میڈیسن پرائز کمیٹی کے مطابق اوسومی کی تحقیق اس لیے بھی بہت سے نئے ممکنہ رستے کھول سکتی ہے کہ جس ’آٹوفیجی‘ کا وہ برسوں سے مطالعہ کر رہے ہیں، اسی کی ’بگڑی ہوئی اور خلل کی شکار صورت‘ کا تعلق پارکنسنز سنڈروم (رعشے)، ذیابیطس، سرطان اور کئی دوسرے امراض سے بھی دیکھا گیا ہے۔
کارولِنسکا انسٹیٹیوٹ کے مطابق، ’’اب اس بارے میں بہت بھرپور ریسرچ کی جا رہی ہے کہ ایسی ادویات تیار کی جا سکیں، جو مختلف بیماریوں میں نظر آنے والی اسی منفی ’آٹوفیجی‘ کو اپنا ہدف بنا سکیں۔‘‘
یوشینوری اوسومی کا تعلق جاپان کے شہر فُوکُواوکا سے ہے اور وہ ٹوکیو انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ایک پروفیسر ہیں۔ انہیں 2012ء میں کیوٹو پرائز بھی دیا گیا تھا، جو جاپان کا عالمی سطح پر خدمات کے لیے اعلیٰ ترین نجی ایوارڈ ہے۔
یوشینوری اوسومی نے اپنے لیے نوبل انعام کی اطلاع ملنے پر کہا کہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انہیں بھی کوئی نوبل انعام ملے گا، خاص طور پر ایک ایسے کام کے لیے، جس میں وہ ’عشروں تک ہر روز خمیر (yeast) کے خلیوں کا ایک خوردبین کے نیچے مطالعہ‘ کرتے رہے ہیں۔
سٹاک ہولم میں اس اعلان کے بعد کہ 2016ء کا طب کا نوبل انعام انہیں ملے گا، پروفیسر اوسومی نے ٹوکیو میں صحافیوں کو بتایا، ’’ایک لڑکے کے طور پر میرا خواب تھا کہ مجھے بھی نوبل انعام ملے۔ لیکن جب میں نے اپنی تحقیق شروع کی، تو نوبل انعام میری زندگی کے منظر نامے سے غائب ہو گیا تھا۔‘‘
پروفیسر اوسومی نے کہا، ’’میں بہت سے لوگوں کا مقابلہ کرتے ہوئے بےچین سا ہو جاتا ہوں۔ اس کے برعکس میرے لیے یہ بات زیادہ خوش کن اور دلچسپ ہے کہ میں وہ کام کروں، جو کوئی دوسرا نہیں کر رہا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’سائنس اسی کا نام ہے۔ کوئی نئی چیز تلاش کر لینے کی خوشی ہی وہ قوت ہے، جو مجھے تحریک دیتی ہے۔‘‘
دیگر شعبوں میں اس سال کے نوبل انعامات کی حقدار شخصیات کے ناموں کا اعلان آئندہ دنوں میں کیا جائے گا۔ ان شخصیات کو نقد رقوم کے ساتھ یہ انعامات دس دسمبر کو منعقد ہونے والی ایک تقریب میں دیے جائیں گے۔