عالمی بینک: چین کے ووٹنگ اختیار میں اضافہ
26 اپریل 2010عالمی بینک کے پالیسی ساز ادارے کی اتوار کو ہونے والی اہم میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ عالمی اقتصادی فیصلوں پر حتمی رائے شماری کے دوران ووٹنگ میں اختیارات کے اعتبار سے چین کو تیسری اہم پوزیشن تفویض کر دی گئی ہے۔ ووٹنگ کے اختیار کے حوالے سے امریکہ کی پہلی اور جاپان کی دوسری پوزیشن کو برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ فیصلہ عالمی بینک کے پالیسی بنانے والے ادارے ’پالیسی سیٹنگ ڈیویلپمنٹ کمیٹی‘ کے اجلاس میں کیا گیا اور مختلف فیصلوں کا اعلان ورلڈ بینک کے صدر رابرٹ زوئلک نے کیا۔ یہ کمیٹی ورلڈ بینک کا سٹیئرنگ سمجھی جاتی ہے۔
اس اتفاق رائے میں مختلف ملکوں کی حکومتوں کی ۔ جانب سے بھی گرین سگنل دیا گیا تھا۔ اس ووٹنگ اختیار میں تبدیلی سے ورلڈ بینک کے اہم فیصلوں میں حتمی فیصلے کے حوالے سے طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی تو پیدا نہیں ہوئی لیکن ترقی پذیر ملکوں کی وقعت میں نمایاں اضافہ محسوس کیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے غریب اور ابھرتی اقتصادیات کو صنعتی اور امیر ملکوں کے برابر اختیارات پر کسی بھی حتمی فیصلے کو سن 2015ء تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔ ووٹنگ اختیار میں تبدیلی کے حوالے سے بینک کے صدر رابرٹ زوئلک کا کہنا تھا کہ یہ نئی حقیقتوں کا اعتراف ہے اور وقت کے ساتھ ابھرتی اقتصادیات کے اختیارات میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ زوئلک کے مطابق ورلڈ بینک اب کثیر الملکی اقتصادیات کا حامل ادارہ بنتا جا رہا ہے۔ ورلڈ بینک کے فنڈ میں اضافے کو بینک کے صدر نے اعتماد کا نشان قرار دیا، جو اُن کے بقول بینک اور تمام کارکنوں کے لئے انتہائی اطمینان بخش ہے۔
اس اہم اختیاراتی فیصلے سے قبل چین کو کئی یورپی ملکوں سے نیچے رکھا گیا تھا۔ بین الاقوامی تنظیموں اور دوسرے فورمز اور خصوصی طور پر اقتصادی و مالیاتی سیمیناروں میں مسلسل اس بات پر اظہار خیال کیا جا رہا تھا کہ عالمی بینک کے ووٹنگ اختیار میں ابھرتی اقتصادیات کو نمایاں مقام دینے سے ہی عالمی مالیاتی معاملات میں بہتری اور سدھار پیدا ہو سکے گا۔ عالمی بینک میں ٹاپ سطح پر ووٹنگ کا زیادہ اختیار رکھنے والے اب دو ایشیائی ملک ہو گئے ہیں۔ ورلڈ بینک میں مالیاتی فیصلوں پر ایشیا کے پاس سینتالیس فی صد اختیار آ گیا ہے۔
اہم اور نمایاں اقتصادیات کی حامل حکومتوں کی جانب سے عالمی بینک کو نوے ارب ڈالر زائد فنڈز ملنے کے اشارے سامنے آئے ہیں۔ یہ گزشتہ بیس سالوں میں فنڈز دینے کی سب سے بڑی یقین دہانی ہے۔ اس حوالے سے بینک کی انتظامیہ نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔
عالمی بینک میں کسی بھی رائے شماری میں پہلے چین کے پاس سوا دو فیصد حصہ تھا، یہ بڑھ کر اب ساڑھے چار فی صد کے قریب ہو گیا ہے۔ اس ووٹنگ اختیار میں جرمنی کو چوتھا مقام حاصل ہے۔ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی اکانومی بھی تصور کی جاتی ہے۔ عالمی بینک کی رائے شماری میں چین کے ابھرنے سے یورپی ملک فرانس اور برطانیہ مزید نیچے چلے گئے ہیں۔ تازہ فیصلوں پر چند ملکوں کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان میں جنوبی افریقہ اور برازیل نمایاں ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی