1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب دنيا ميں ہنگاموں سے متاثرہ مہاجرين کی منزل يورپ

11 اپریل 2011

عرب ممالک ميں بے چينی شروع ہونے کے بعد سے 22 ہزار سے بھی زيادہ پناہ گزين اٹلی کے جزيرے لامپےڈوسا پہنچ چکے ہيں اور ان کا تانتا بندھا ہوا ہے۔جرمنی ای ان پناہ گزينوں کو قبول کرنے پر رضامند ہے۔

https://p.dw.com/p/10rET
epa02678674 A boat with immigrants on board arrives on the Italian island of Lampedusa, southern Italy, on 09 April 2011. Reports state that Italy and France agreed on 08 April 2011 to carry out joint patrols of the Tunisian coast to block migrants headed for Europe, with the French interior minister saying there was no duty to take in boat people. EPA/ETTORE FERRARI
اطالوی جزيرے لامپے ڈوسا آنے والے پناہ گزينتصویر: picture alliance/dpa

يورپی کميشن کا مطالبہ ہے کہ مالٹا اور اٹلی آنے والے شمالی افريقہ کے پناہ گزينوں کو يورپی يونين کے رکن ممالک ميں تقسيم کيا جائے تاکہ کسی ايک ملک پر زيادہ بوجھ نہ پڑنے پائے۔ جرمنی نے لمبے عرصے تک مزاحمت کی ليکن اب وہ مالٹا سے 100 پناہ گزينوں کو قبول کرنا چاہتا ہے۔

يورپی يونين کے وزرائے داخلہ آج پير کو شمالی افريقہ سے آنے والے پناہ گزينوں ہی کے موضوع پر بات چيت کے لئے اکٹھے ہورہے ہيں۔اس کانفرنس کے دوران يہ واضح ہوگا کہ کيا دوسرے رکن ممالک جرمنی کی اس پيشکش سے مطمئن ہيں يا نہيں۔ جرمنی کے متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ وہ مزيد پناہ گزينوں کے داخلے کے انتظامات بھی کرچکے ہيں۔

epa02677896 Egyptian protesters shout slogans against the Minister of Defense after clashes with the Egyptian amy occurred during the night, in Tahrir square, Cairo, Egypt, 09 April 2011. According to medical sources, two Egyptian died and at least 13 protesters were injured as the army tried to disperse thousands who remained in central Cairo's Tahrir Square on early 09 April, demanding a speedy trial for ousted president Hosny Mubarak and senior leaders accused of corruption. Protesters expressed their anger at the country's new military rulers for a lack of transparency and slow decision making. They also voiced their frustration that, nearly two months after Mubarak was toppled, neither he, nor anyone from his family, nor any senior aides have been imprisoned for allegedly pocketing the equivalent of billions of dollars. EPA/KHALED ELFIQI
مصر ميں مظاہرہتصویر: picture alliance/dpa

احمد سيد سن 1984ء ميں شام سے فرار ہوکر جرمنی آئے تھے۔ اس سے پہلے انہيں، حکمران بعث پارٹی کا مخالف قرار دے کر دو مرتبہ کوئی وجہ بتائے بغير گرفتار کر ليا گيا تھا۔ ان کا خيال ہے کہ آج مطلق العنان حکومتوں کے لئے جبر کرنا اتنا آسان نہيں رہا جتنا کہ پہلے تھا:

’’ اس وقت سب کچھ چھپ کر کرنا اتنا آسان نہيں ہے۔ اب انٹرنيٹ ہے، ٹيلی وژن ہے اور دوسرے ميڈيا بھی ہيں جن ميں کھل کر ناانصافيوں کو موضوع بنايا جاتا ہے۔‘‘

Ägypten Demonstration Libyen
مصر ی مظاہرين ليبيا کا پرچم لہراتے ہوئےتصویر: dapd

عرب دنيا ميں سياسی تبديليوں کے نتيجے ميں بہت سے عرب سياسی پناہ کی غرض سے يورپ کا رخ کررہے ہيں جيسے کہ 27 سالہ احمد سيد بھی۔ جہاں يورپی يونين کے رکن ممالک پناہ گزينوں سے بزتاؤ کے بارے ميں غور کررہے ہيں، وہاں جرمنی ميں متعلقہ حکام شمالی افريقہ کے عرب پناہ گزينوں ميں سے کچھ کو جرمنی ميں جگہ دينے کے انتظامات ميں مصروف ہيں۔ ترک وطن اور مہاجرين کے وفاقی جرمن دفتر کے سربراہ منفريڈ شمٹ نے کہا:

’’ اگر يورپی يونين نے پناہ گزينوں کو جرمنی ميں بھی آباد کرانے کا فيصلہ کيا تو وفاقی جرمن دفتر اور وفاقی صوبے بھی اس انسانی نوعيت کی امداد کے ليے تيار ہيں۔‘‘

ترک وطن اور مہاجرين کے وفاقی جرمن دفتر پر اس سلسلے ميں کام کا بوجھ پہلے ہی خاصا زيادہ ہے۔ پچھلے سال سياسی پناہ کے ليے داخل کی جانے والی درخواستوں ميں 50 فيصد کا اضافہ ہوا تھا اور وہ 41 ہزار تک جا پہنچی تھيں۔ ان کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔

تاہم سياسی پناہ کی درخواست منظور ہونے کا عمل بہت طويل ہے اور اس دوران کام يا کہيں سفر کی اجازت بھی نہيں ہوتی۔ يہ صورتحال متاثرہ افراد کے ليے کافی تکليف دہ ہوتی ہے۔

رپورٹ: ڈينس اشٹوٹے/ شہاب احمد صديقی

ادارت مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید