غرباء کے گھر ’بوتل لیمپوں‘ سے روشن
12 جولائی 2011عام طور پر ٹین کی چھتوں والے ان گھروں میں دن کے وقت بھی اندھیرا رہتا تھا اور لوگوں کو بلب جلانے پڑتے تھے۔ اِس نئی اور سادہ تکنیک کے بعد اُنہیں کم از کم دن کے وقت بلب جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
پلاسٹک کی بوتلیں عام طور پر منیلا کی سڑکوں پر کوڑے کرکٹ میں پڑی ملتی ہیں۔ اب انہی بوتلوں کی مدد سے سورج کی روشنی ان تاریک گھروں کے اندر تک پہنچ رہی ہے، جن میں سے کئی محض بیس مربع میٹر سائز کے ہیں۔
ان بوتلوں میں ایک لیٹر پانی کے ساتھ ساتھ چار چھوٹے چمچ رنگ کاٹ بھی ملا دیا جاتا ہے، جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ پانی مہینوں بلکہ برسوں تک صاف شفاف رہے اور اُس کے اندر کائی وغیرہ نہ بنے۔
آدھی بوتل چھت سے باہر جھانک رہی ہوتی ہے اور آدھی کمرے کے اندر نظر آتی ہے۔ جس سوراخ میں سے بوتل نیچے لٹک رہی ہوتی ہے، اُسے ہر طرف سے اچھی طرح سے بند کر دیا جاتا ہے تاکہ بارش وغیرہ کا پانی چھت سے نہ ٹپکے۔ اس طرح کا ’بوتل لیمپ’ تیار کرنے اور نصب کرنے میں پندرہ منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگتا۔
جہاں چھت میں کسی عام سوراخ سے روشنی سیدھی ایک لکیر کی صورت میں کسی ایک ہی مقام پر پڑتی ہے، وہاں پانی اسی روشنی کو نہ صرف عمودی بلکہ افقی سمت میں بھی 360 ڈگری پر یعنی ہر طرف منعکس کر دیتا ہے۔ بلب کے مقابلے میں یہ روشنی سفید اور زیادہ اُجلی بھی ہوتی ہے۔ ان بوتلوں کی مدد سے سال کے دَس مہینے روشنی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسا کوئی بوتل لیمپ کم از کم پانچ سال تک روشنی فراہم کر سکتا ہے۔
اس طریقے سے روشنی حاصل کرنے کی ابتدائی کوششیں مشرقِ وُسطیٰ اور برازیل کے ساتھ ساتھ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کے طالبعلموں کے ایک گروپ کی جانب سے بھی عمل میں لائی گئی تھیں۔
منیلا کی پسماندہ بستیوں اور قریبی صوبے لاگونا میں صرف گزشتہ تین مہینوں کے دوران دَس ہزار سے زیادہ ’بوتل لائٹس‘ نصب کی جا چکی ہیں۔ ایسا ایک ’بوتل لیمپ‘ تقریباً ساٹھ واٹ کے ایک بلب جتنی روشنی مہیا کرتا ہے۔
ان لیمپوں کی تنصیب کے منصوبے کو ’ایک لیٹر روشنی‘ کا نام دیا گیا ہے اور اِس میں مقامی حکومتوں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے ادارے بھی سرگرم عمل ہیں جبکہ بیسیوں افراد، جن میں اسکول طلبہ بھی شامل ہیں، رضاکارانہ طور پر اپنے غریب ہم وطنوں کی مدد کے جذبے کے تحت یہ لیمپ گھر گھر جا کر نصب کر رہے ہیں۔
ان ’بوتل لیمپوں‘ سے پہلے ناممکن تھا کہ ان کچے گھروں کے مکین دن میں بلب جلائے بغیر کمرے میں داخل ہو سکیں۔ زیادہ تر گھروں کا بجلی کا بِل تقریباً 20 ڈالر ماہانہ کے برابر ہوا کرتا تھا تاہم ان نئے لیمپوں کے آنے کے بعد ان لوگوں کو دن کے وقت بلب جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور یوں اُن کے بجلی کے بِل بھی کم ہو گئے ہیں۔
اِس طرح ماحول دوست توانائی کی بدولت ان لوگوں کا معیار زندگی بھی بلند ہوا ہے اور قلیل آمدنی والے ان شہریوں میں سے کئی ایک کا کہنا ہے کہ ان لیمپوں کی بدولت ہونے والی بچت سے اب وہ اپنی ضرورت کی کوئی اور چیز خریدنے کے قابل ہو سکیں گے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: افسر اعوان