غزہ میں غربت اور بدحالی: نجی چڑیا گھر کے شیر بھی برائے فروخت
24 دسمبر 2017فلسطینی خود مختار علاقوں میں غزہ سٹی سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس فلسطینی شہری کا نام محمد احمد جمعہ ہے اور اس نے اپنا ایک نجی چڑیا گھر قائم کر رکھا ہے۔ لیکن اب اس شخص نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس مالی وسائل نہیں کہ وہ ان جانوروں کے لیے خوراک خرید سکے۔ اس لیے اس نے شیر کے ان تینوں بچوں کو ساڑھے تین ہزار اردنی دینار یا پانچ ہزار امریکی ڈالر فی کس کے عوض فروخت کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
فلسطینی علاقوں میں اسرائیل مخالف مظاہرے، چار افراد ہلاک
امریکی پالیسی میں تبدیلی ’اعلان جنگ‘ ہے، حماس
فلسطینی امداد میں کمی، بل امریکی ایوانِ نمائندگان میں منظور
محمد احمد جمعہ نے اے ایف پی کو بتایا، ’’غزہ کی اقتصادی حالت اتنی خراب ہو چکی ہے اور ان جانوروں کے لیے خوراک کی دستیابی اتنی مشکل ہو چکی ہے کہ مجھے مجبوراﹰ شیر کے ان تینوں بچوں کی فروخت کے لیے اشتہار دینا پڑا۔ شیر کے یہ تینوں بچے قریب ایک ماہ قبل پیدا ہوئے تھے۔‘‘
جمعہ نے، جو غزہ پٹی کے علاقے میں مصر کے ساتھ سرحد کے قریب رفاہ کے مقام پر گزشتہ قریب 23 برسوں سے ایک ’نجی چڑیا گھر‘ کہلانے والے جانوروں کے ایک پارک کے مالک ہیں، بتایا کہ ان کے پاس دیگر جانوروں میں دو شیر اور تین شیرنیاں بھی شامل ہیں۔
فلسطین کی یونٹی حکومت اسرائیل کو تسلیم اور حماس کو غیر مسلح کرے، امریکا
حماس غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے پر راضی
معتدل سوچ کے حامل اسماعیل ہنیہ حماس کے نئے سربراہ منتخب
انہوں نے کہا کہ ان کے پارک میں موجود جانوروں کی صرف خوراک پر ہی ہر ماہ قریب 345 امریکی ڈالر کے برابر خرچ آتا ہے اور ان کی کوشش ہو گی کہ وہ شیر کے ان تینوں بچوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے دیگر جانوروں کے لیے خوراک کا اہتمام کر کے انہیں زندہ رکھ سکیں۔
جمعہ نے شیر کے ان تینوں بچوں کے نام فلسطین، القدس اور ایردوآن رکھے ہوئے ہیں۔ فیس بک پر دیے جانے والے ’شیر کے بچے برائے فروخت‘ کے اشتہار کے بعد سے کئی لوگوں نے ان سے تحریری طور پر اور ٹیلی فون کے ذریعے رابطے تو کیے ہیں تاہم محمد احمد جمعہ ابھی تک شیر کا کوئی ایک بھی بچہ فروخت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
غزہ پٹی کے علاقے کو 2008ء سے تین خونریز جنگوں کی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی طرف سے گزشتہ ایک عشرے سے مکمل ناکہ بندی کا بھی سامنا ہے۔ 2016ء میں وہاں بدحالی اور ٹوٹ پھوٹ کے شکار ایک چڑیا گھر سے انہی اقتصادی مشکلات کے باعث ایک ٹائیگر، دو کچھوے، ایک ہرن اور کئی دیگر جانور جنوبی افریقہ، اردن اور اسرائیل کے مختلف اداروں میں منتقل کر دیے گئے تھے۔