فضل الرحمان پر خود کش حملہ، بال بال بچ گئے
31 مارچ 2011پولیس حکام کے مطابق حملہ چارسدہ میں مولانا فضل الرحمان کے استقبالی جلوس پرکیا گیا۔ گزشتہ روز صوابی میں بھی ان پر ایک خود کش حملہ کیا گیا تھا۔ جمیعت علمائے اسلام کے رہنما عبدالجلیل جان نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’بم دھماکہ اس وقت ہوا، جب مولانا فضل الرحمان کی گاڑی وہاں سے گزر رہی تھی۔ وہ ایک عوامی اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ مولانا اس حملے میں بالکل محفوظ ہیں اور صحیح سلامت ہیں۔‘‘
مولانا فضل الرحمن مردان میں جلسہ سے خطاب کرنا تھا اور ان کے استقبال کے لیے چارسدہ میں ڈی سی او آفس کے قریب ایک کیمپ لگایا گیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق خودکش بمبار نے فضل الرحمان کے قافلے میں گھس کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ ان کے مطابق دھماکہ ہوتے ہی چاروں طرف بھگدڑ مچ گئی اور قریبی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق وہاں قریب ہی کھڑی پولیس وین بھی دھماکے سے تباہ ہوگئی۔ مقامی حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں انسپکٹر سمیت تین پولیس اہلکاراوردوخواتین بھی شامل ہیں۔ ڈی پی او چارسدہ نثار مروت کے مطابق جائے وقوعہ پر فوری طور پر امدادی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں اور زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چارسدہ اورلیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاورمنتقل کیا گیا ہے۔ ڈی پی او نثارمروت کا کہنا ہے کہ دھماکے میں 12 کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا ہے۔
عبدالجلیل جان کا مزید کہنا ہے، ’’خودکش حملہ آور کا نشانہ مولانا فضل الرحمان تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کو ان کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ برسوں کے دوران متعدد سیاسی رہنماؤں پر حملے کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل ملک کے واحد اقلیتی وزیر شہباز بھٹی اور پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر بھی کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔
پاکستانی فوج افغانستان سے ملحقہ سرحد پر عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ عسکریت پسندوں کی طرف سے پاکستان بھر میں حملےکیے جا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ امریکی ایماء پر ہونے والے فوجی آپریشن بند کیے جائیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ امریکی مخالفت کے باوجود انہیں کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عدنان اسححاق