1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینیوں کی بےدخلی، امریکی سفارت خانہ اور تباہ کن صدر ٹرمپ

اینس پوہل (م۔ م)
15 مئی 2018

دھوئیں اور شعلوں میں لپٹی ہوئی دنیا، غزہ پٹی سے ملنے والی تصویریں محض کسی خبر کی تصویریں نہیں ہیں۔ یہ تصویریں ان خطرات کی علامت ہیں، جن کی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اینس پوہل کا لکھا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/2xkY5
تصویر: Getty Images/AFP/M. Abed

ایک سیاستدان کے طور پر ٹرمپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا کہ ان علاقوں میں، جو سات عشرے قبل فلسطینیوں کو جبری طور پر بے دخل کر کے حاصل کیے گئے تھے اور جن پر آج اسرائیلی ریاست قائم ہے، امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کی علامتی تقریب عین اسی دن منعقد کی جائے، جب فلسطینی اپنی بے دخلی کی ستّرویں سالگرہ منا رہے ہوں۔ یروشلم میں امریکا کے نئے سفارت خانے کی عمارت کا نصف حصہ شہر کے اس مشرقی حصے میں تعمیر کیا گیا ہے، جسے فلسطینی مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے دو ریاستی حل کی صورت میں اپنی آزاد اور خود مختار ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔

فلسطین میں آج جنازوں کا دن

غزہ مظاہرے، ہلاکتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے

یہ بات فلسطینیوں کے منہ پر ایک سفارتی تھپڑ کے مترادف ہے۔ اس کے خلاف احتجاج کا پرتشدد رنگ اختیار کر جانا بھی قابل افسوس ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ یہ دانستہ اقدام کیا ہی اس طرح گیا تھا کہ اس کے بعد پیدا ہونے والی بہت مشتعل صورت حال میں احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جا سکے۔ مطلب یہ کہ غزہ پٹی میں اس احتجاج کے دوران بہت سے فلسطینیوں کی ہلاکت اور بہت سے دیگر کے زخمی ہو جانے کی ذمے داری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد ہوتی ہے۔

ٹرمپ چاہتے کیا ہیں آخر؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ کئی برسوں کی انتھک سفارت کاری کے نتیجے میں طے پانے والے بین الاقوامی جوہری معاہدے کو اپنے دستخطوں کے ساتھ یکدم تباہ و برباد کر دیا۔ اس کے لیے انہوں نے یورپ میں اسی معاہدے پر دستخط کرنے والے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مشاورت تک کی تکلیف نہ کی۔ اس طرح مشرق وسطیٰ میں پہلے سے پائی جانے والی کشیدگی مزید بڑھا دی گئی اور وہ بھی اس طرح کہ امریکا کے ساتھ تعاون سے یورپ میں پائے جانے والے سات عشرے پرانے اس نظام امن کو بھی خطرے میں ڈال دیا گیا، جس کا دراصل تحفظ کیا جانا چاہیے تھا۔

اسرائیلی سرحد پر گیارہ سو سے زائد فلسطینی زخمی

ایک سوال یہ بھی ہے کہ ٹرمپ آخر چاہتے کیا ہیں؟ جواب یہ ہے کہ وہ اپنے پیش رو امریکی صدور کی تمام کامیابیوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اور وہ بھی اول تو کسی بھی طرح کے ’پلان بی‘ کے بغیر اور پھر یہ بھی سوچے سمجھے بغیر کہ ان کے ان اقدامات کے نتائج کتنے تباہ کن ہوں گے۔

Gaza Israel Konflikt Jerusalem US Botschaft
تصویر: Reuters/R. Zvulun

ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر آج تک اپنا کام ایسے نہیں کیا کہ یہ پتہ چل سکے کہ وہ ایک جمہوری طور پر منتخب شدہ صدر ہیں۔ وہ اپنی سیاست ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ان کے فیصلے اسی دن کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں، جس دن وہ یہ فیصلے کر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں آنے والے کل کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ ٹرمپ کی اس سیاست کو سمجھنے کے لیے یہ دیکھنا بھی لازمی ہے کہ وہ طاقت اور اقتدار کی صرف انہی علامات کا پیچھا کرتے ہیں، جو انہوں نے خود اپنے لیے منتخب کر رکھی ہوتی ہیں۔

اسرائیلی ریاست کے 70 برس: اطمینان اور نا پسندیدگی ساتھ ساتھ

دنیا کے کئی ممالک میں ان کی ملکیت آسمان سے باتیں کرتی عمارات اور اداروں کے صدر دروازوں پر ان کا چمکتا ہوا نام، وہ اسی نام کی بلندی کو پیش نظر رکھتے ہیں اور پھر وہی کرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست میں ’سب سے پہلے امریکا‘ نہیں بلکہ ’سب سے پہلے ٹرمپ‘ نظر آتا ہے۔ یہ کہنا بھی کوئی نئی بات نہیں ہو گی کہ ٹرمپ ان دنوں اپنی جس تباہ کن طاقت کا استعمال کر رہے ہیں، اس کا سرچشمہ بھی یہی طرز فکر ہے۔ اپنے کسی بھی فیصلے کے ممکنہ اثرات کے لحاظ سے ان کے پاس کوئی متبادل منصوبہ یا ’پلان بی‘ نہیں ہوتا۔ ان کے لیے یہ بات بھی اہم نہیں ہے کہ مختلف ممالک کے بارے میں ان کے فیصلوں اور ان ممالک کی قیادت پر ان کے زبانی حملوں کے اثرات امریکا سے باہر کی دنیا کو بھی کس حد تک متاثر کرتے ہیں۔

Gaza Israel Konflikt Jerusalem US Botschaft
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa

یہی ان امور کی وجوہات ہیں کہ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری ڈیل سے امریکا کے اخراج کا فیصلہ کیا اور پھر یروشلم میں نئے امریکی سفارت خانے کے علامتی افتتاح کے لیے بھی ایک ایسی تاریخ منتخب کی، جو سفارتی سطح پر فلسطینیوں کے منہ پر مارا جانے والا ایک تھپڑ تھا، ایک ایسا فیصلہ جس کے بارے میں یہ سوچا ہی نہیں گیا تھا کہ اس کے بعد کیا کچھ دیکھنے میں آ سکتا ہے۔

’غزہ میں کوئی معصوم لوگ نہیں‘، اسرائیلی وزیر کا متنازعہ بیان

اسرائیلی فائرنگ سے مزید نو فلسطینی ہلاک، 491 زخمی

جرمنی اور یورپ کو جاگنا ہو گا

جرمنی اور یورپ کے لیے ٹرمپ کی اس سیاست کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب جرمنی اور یورپ دونوں کو جاگنا ہو گا۔ دوسری عالمی جنگ کے سات عشروں بعد برلن اور برسلز کو اب تو جاگ ہی جانا چاہیے۔ یورپ کو خارجہ تعلقات اور سلامتی کے امور سے متعلق اپنی سیاست بالآخر اب اپنے ہی ہاتھوں میں لینا ہو گی۔

Ines Pohl Kommentarbild App
ڈوئچے ویلے کی چیف ایڈیٹر اینس پوہلتصویر: DW/P. Böll

جرمنی کو اپنی فوج اور اس کی دفاعی صلاحیت میں اضافے کے لیے زیادہ مالی وسائل خرچ کرنا ہوں گے، برطانیہ کو بھی یہ بات مد نظر رکھنا ہو گی کہ بریگزٹ کے بعد کی صورت حال میں لندن کی سوچ اور فیصلے کیا ہوں گے اور جرمنی اور فرانس کو مل کر یورپی دفاع اور یورپی اتحاد کے لیے بھی اور زیادہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

یورپ کو اب ایک ایسا راستہ تلاش کرنا ہو گا کہ وہ اپنی داخلی شکست و ریخت سے بچتے ہوئے اپنے لیے باہمت فیصلوں کی جرأت کر سکے اور یہ واضح ہو سکے کہ یورپ اقوام عالم کی برادری میں آئندہ کس طر‌ح رہنا چاہتا ہے۔ یہ سب بہت بڑے چیلنجز ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ ایک ایسا ملک جس پر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے سیاستدان کی حکومت ہو، اس پر اب انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ ایسا کرنا بالکل غلط ہو گا۔

غزہ سے ان دنوں جس طرح کی تصویریں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں دیکھنے میں آ رہی ہیں، وہ اس امر کا ایک بہت اداس کر دینے والا ثبوت ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو لازمی طور پر اور فوراﹰ کیا جانا چاہیے۔