قرآن کی مبینہ آتشزنی کے بعد کشیدگی، گھوٹکی میں ایک ہندو قتل
28 جولائی 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی پولیس کے حوالے سے اٹھائیس جولائی بروز جمعرات بتایا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کل بدھ کے دن ایک اٹھارہ سالہ ہندو لڑکے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جبکہ فائرنگ کی وجہ سے ایک دوسرا شخص زخمی بھی ہو گیا۔
گھوٹکی کے اعلیٰ پولیس اہلکار مسعود بنگش نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چار روز قبل ایک مقامی مسجد کے قریب سے مبینہ طور پر قرآن کی چند جلی ہوئی جلدیں ملی تھی، جس کے بعد ایک ہندو کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔
مقامی حکام نے بتایا کہ گھوٹکی میں پولیس کا گشت سخت کر دیا گیا ہے تاکہ کسی نئے ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ اس شہر میں گزشتہ کئی دنوں سے ماحول کافی تناؤ کا شکار ہے۔
بنگش کے بقول ہندو نوجوان کی ہلاکت کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں جبکہ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
بنگش نے بتایا کہ اس پرشدد واقعے کو قرآن کی جلدوں کے جلائے جانے کے مبینہ واقعے سے منسوب کرنا قبل از وقت ہو گا۔
مسعود بنگش نے مزید کہا کہ شہر میں روزمرہ کی زندگی بحال ہو چکی ہے لیکن ممکنہ پرتشدد واقعات کے پیش نظر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں دوکانیں کھل چکی ہیں اور لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی بحال ہو چکا ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے خلاف نافذ سخت قوانین کے تحت ایسے کسی بھی مجرم کو سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے لیکن ابھی تک ایسے کسی مجرم کو سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
تاہم عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسے کسی مبینہ واقعے حتیٰ کہ افواہ پر بھی مشتعل اکثریتی مسلمان قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔
حالیہ عرصے میں پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ بھی نوٹ کیا گیا ہے، جہاں طالبان اور دیگر شدت پسند گروہ باقاعدگی کے ساتھ مسیحی، سکھ، ہندو، احمدی اور شیعہ عقیدوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔