لیسبوس کے جزیرے پر مہاجرین کے لیے بہتا ہوا تھیٹر
21 جون 2016ماتلیدا فون وائزن برگ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ہنستے ہوئے کہا،’’ ہم اعلٰی سطح کی سیاست میں مصروف ہیں۔ ‘‘ ان کا کام اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون جیسا نہیں ہے جنہوں نے حال ہی میں لیسبوس جزیرے پر مہاجرین کے ایک کیمپ کا دورہ کیا ہے تاہم ماتلیدا اسے اس سے کم اہم بھی نہیں سمجھتیں۔ فن لینڈ کی رہائشی ماتلیدا کو لیسبوس کے یونانی جزیرے پر قائم مہاجر کیمپ کا دورہ کرنے کی غرض سے اپنے تھیٹر طائفے کے لیے منظوری حاصل کرنے میں آخری لمحات میں کامیابی حاصل ہوئی۔ گزشتہ دو موسم گرما سے ،’’ اوڈیسے سے ملاقات‘‘ نامی یہ تھیٹر پروجیکٹ بحری جہاز کے ذریعے یورپ کا سفر کر رہا ہے۔ اس پروجیکٹ میں آٹھ ممالک سے اداکار شامل ہیں ۔ اس پروجیکٹ کے تحت مختلف ورکشاپس کرائی جاتی ہیں اور ہومر کی نظم ’ اوڈیسے ‘ سے متاثر ہوکر تحریر کیے گئے ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں۔ یورپی یونین کا تھیٹر جہاز ’ہوپٹ ‘ آج کل بحیرہ روم کے سفر پر ہے۔
اطالوی ڈائریکٹر مشیل لوسی جو یورپی یونین کے زیر اہتمام تھیٹر کے بانیوں میں سے ہیں، کا کہنا تھا کہ ابتدا میں اقتصادی بحران اور شمالی و جنوبی یورپ کے درمیان فاصلے جیسے مسائل کا سامنا تھا۔ اطالوی ڈائریکٹر نے مزید کہا، ’’ لیکن اب جبکہ یورپ کو نئی سرحدوں اور بڑھتی ہوئی قوم پرستی جیسے نئے مسائل کا سامنا ہے جن میں سے ایک یورپی سالمیت کو خطرہ بھی ہے، اس پروجیکٹ کی نوعیت زیادہ سیاسی ہو گئی ہے۔‘‘ تھیٹر ٹیم پر جلد ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ مہاجرین کو اس کام میں شامل کیا جانا چاہیے۔
لیسبوس کے جزیرے پر قائم کارا ٹیپ نامی مہاجر کیمپ میں تھیٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے پروگراموں میں ایک بڑا حصہ موسیقی کے پروگرام کا ہے۔ اس پروجیکٹ میں دستاویزی فلم بنانے والی ایک خاتون ایمی لی بھی شامل ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے ان کے لیے یہ سب خیالی دنیا کے ایک ثقافتی تہوار کی طرح تھا لیکن اب یہ پروجیکٹ حقیقت میں کام کر رہا ہے۔ البتہ ایملی کو یہ جاننے کا تجسس تھا کہ لیسبوس کے مہاجرین تھیٹر کے پروگراموں پر کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ دوسری جانب فن لینڈ کی اداکارہ ماریہ اہلراتھ کچھ گھبرائی ہوئی تھیں۔ ان کو پریشانی تھی کہ کہیں بچے سٹیج پر دوڑنا شروع نہ کر دیں اور سب کچھ درہم برہم نہ ہو جائے۔
تھیٹر میں پیش کیا جانے والا کھیل ’ زندگی کی یادیں‘ یادوں کو کھونے اور یاد رکھنے کے بارے میں ہے۔ سٹیج پر اور شائقین کے درمیان بھاگتے دوڑتے بچوں کے حوالے سے فضا کچھ نا ساز گار بھی تھی لیکن خوش قسمتی سے ڈرامے میں موسیقی زیادہ ہونے کے باعث یہ شور کافی حد تک دب گیا تھا۔ ناظرین نے موسیقی کو بہت پسند کیا اور وقفے وقفے سے تالیاں بجاتے رہے۔ اچھی بات یہ تھی کہ مہاجر کیمپ کے قریب نصف رہائشی تھیٹر دیکھنے آئے تھے۔ اس ٹور کی منتظمہ ماتلیدا فون وائزن برگ کا کہنا تھا، ’’ ہم اپنے تھیٹر کے ساتھ دنیا کو تو نہیں بچا سکتے لیکن شاید ہم ان لوگوں کو جنہوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا ،کچھ خواب یا کوئی مقصد ضرور دے سکتے ہیں۔‘‘