’مجھے نہ مارو، مر جاؤں گا‘، ملزمان کے خلاف کارروائی شروع
17 اگست 2015عام طور پر بنگلہ دیش میں اس طرح کے واقعات تواتر سے پیش آتے رہتے ہیں لیکن اس واقعے کی خاص بات یہ تھی کہ اس لڑکے کو زد و کوب کیے جانے کی ایک مفصل ویڈیو انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دی گئی تھی۔
اس تیرہ سالہ لڑکے کا نام سمیع الاسلام راجن تھا اور یہ تیرہ ملزمان غالباً اس وجہ سے اُسے پیٹتے رہے کہ اُنہیں شبہ تھا کہ اُس نے ایک بائیسکل چرائی ہے۔ خفیہ تفتیش کرنے والی پولیس کے انسپکٹر سورن جیت تعلقدار نے ان ملزمان کے خلاف چالان اتوار کو سلہٹ کی ایک عدالت میں جمع کروا دیا۔ ان ملزمان کے خلاف آئندہ کارروائی کا فیصلہ اب سلہٹ کی یہ عدالت ہی کرے گی۔
اس لڑکے کو پیٹے جانے کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی ویڈیو کا دورانیہ اٹھائیس منٹ تھا۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ کیسے یہ لڑکا بار بار چِلاتا ہوا مدد مانگتا ہے لیکن اُس پر رحم نہیں کیا جاتا اور ملزمان اُسے مسلسل مارتے پیٹتے رہتے ہیں۔
اس ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سے اس جنوبی ایشیائی ملک میں مسلسل بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس لڑکے کے جسم پر زخموں کے کم از کم چونسٹھ نشانات تھے۔
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے یہ لڑکا درد سے چِلا رہا ہے اور اپنے حملہ آوروں کی منتیں کر رہا ہے:’’خدارا مجھے نہ مارو، (مَیں) مر جاؤں گا، مر جاؤں گا۔‘‘ اُس کی اس چیخ و پکار پر اُس پر رحم کھانے کی بجائے ملزمان اُس پر اُس وقت ہنسنا شروع کر دیتے ہیں، جب وہ اُن سے پانی مانگتا ہے۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں بہت سے دیگر غریب بچوں کی طرح راجن کو بھی اپنے کنبے کی مالی معاونت کے لیے اسکول چھوڑنا پڑا تھا اور اُس نے سبزیاں فروخت کرنا شروع کر دی تھیں۔
اس واقعے میں ملوث بڑا ملزم، جس کا چہرہ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے، فرار ہو کر سعودی عرب چلا گیا تھا، جہاں وہ ملازمت کرتا ہے اور جہاں سے وہ اُن دنوں چھٹیوں پر واپس وطن آیا ہوا تھا، جب یہ واقعہ ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ اُسے سعودی عرب میں حراست میں لیا جا چکا ہے اور اُسے جلد کسی وقت واپس بنگلہ دیشی حکام کے حوالے کر دیا جائے گا۔
دیگر بارہ ملزمان کو پولیس پہلے ہی مقامی باشندوں کی مدد سے گرفتار کر چکی ہے۔ کئی ایک کو شہریوں نے اُسی وقت پکڑ لیا تھا، جب وہ لاش کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ قصور وار ثابت ہونے پر ان سبھی ملزمان کو موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔