مساجد کے اماموں کی تربیت اب جرمن یونیورسٹیوں میں
17 اکتوبر 2010ان تین یونیورسٹیوں میں سے دو، ٹیوبنگن اور میونسٹر 2011ء کے موسمِ خزاں سے اماموں کے کورسز رائج کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، جو مکمل طور پر جرمن زبان میں ہوں گے۔ اِس سے پہلے یہ یونیورسٹیاں اپنے مسیحی تعلیمات کے شعبوں کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں اور اِن کے سابق پروفیسروں میں موجودہ پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم بھی شامل ہیں۔ تیسری اوسنابرُوک یونیورسٹی ہے، جس نے اِسی ہفتے تیس طلبہ کے لئے امام کے ایک کورس کا آغاز کیا ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت پسندانہ حملوں کے بعد سے بہت سے یورپی ممالک اِس بات پر غور کرتے چلے آ رہے ہیں کہ مساجد کے لئے مسلمان ملکوں سے ایسے امام منگوانے کی بجائے، جو جدید اور کثیر الثقافتی معاشروں کا زیادہ فہم نہ رکھتے ہوں، کوئی ایسے طریقے سوچے جائیں کہ یورپی یونیورسٹیوں میں ہی اماموں کی تربیت کا انتظام ہو سکے۔
جرمنی کے سرکاری اسکولوں میں کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور یہودی طلبہ کے لئے الگ سے مذہبی تعلیم کا انتظام موجود ہے۔ اب اِن اسکولوں کو مسلمان طلبہ کے لئے بھی ماہر اساتذہ کی ضرورت ہے۔ کچھ صوبوں میں ابھی سے اسلامیات کی تعلیم رائج ہے، دیگر میں ایسا کرنے کا پروگرام ہے۔
برلن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے تعلیم آنیٹے شاوان نے کہا، ’ہمیں ایسے زیادہ سے زیادہ اماموں کی ضرورت ہے، جنہوں نے جرمنی میں تعلیم حاصل کی ہو‘۔ شاوان نے کہا کہ امام اپنی کمیونٹی اور اُس کمیونٹی کے درمیان، جہاں اُن کی مسجد واقع ہوتی ہے، ایک پُل کا کام کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر تمام صوبے اسلامیات کے کورسز کی پیشکش کریں تو جرمنی کو دو ہزار اماموں اور اسلام کی تعلیم دینے والے اساتذہ کی ضرورت ہو گی۔
اِس منصوبے کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے، جب ملک میں اسلام کے کردار سے متعلق ایک گرما گرم بحث بھی جاری ہے۔ سینٹرل بینک کے بورڈ کے رکن تھیلو زاراسین کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑ گیا تھا کیونکہ اُنہوں نے اپنی ایک کتاب میں، جو اب ایک بیسٹ سیلر کتاب بن چکی ہے، جرمنی میں بسنے والے مسلمانوں پر ویلفیئر اسٹیٹ سے ناجائز فائدے حاصل کرنے اور یہاں کے معاشرے میں انضمام کے سلسلے میں نہ ہونے کے برابر کوششیں کرنے کے الزامات عائد کئے تھے۔
ابھی چند روز پہلے جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے موقع پر اپنے خطاب میں جرمن سربراہِ مملکت کرسٹیان وولف نے یہ کہا تھا کہ اسلام جرمن ثقافت میں اپنا ایک مخصوص مقام بنا چکا ہے۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: ندیم گِل