مسلم تہواروں پر چھٹی، جرمن وزیر کی تجویز پر کئی حلقے ’حیران‘
14 اکتوبر 2017اس موضوع پر جرمن دارالحکومت برلن سے ہفتہ چودہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ جرمنی کی قریب 82 ملین کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تقریباﹰ 4.5 ملین بنتی ہے، جن میں سے بہت بڑی اکثریت ان ترک نژاد مسلمانوں کی ہے، جو یا تو جرمن شہریت اختیار کر چکے ہیں یا پھر ابھی تک جرمنی میں ترک شہریوں ہی کے طور پر رہائش پذیر ہیں۔
اس کے علاوہ گزشتہ دو برسوں کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کے طور پر جو ایک ملین سے زائد غیر ملکی جرمنی آئے ہیں، ان میں سے اکثریت کا تعلق مشرق وسطیٰ کے بحران زدہ یا جنگوں کے شکار عرب ممالک سے ہے اور وہ بھی زیادہ تر مسلمان ہی ہیں۔
اس پس منظر میں وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے وفاقی صوبے لوئر سیکسنی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ جرمنی میں مسلمانوں کے مختلف مذہبی تہواروں کے موقع پر علاقائی سطح پر عوامی تعطیل کا نظام متعارف کرا دیا جائے۔
ڈے میزیئر نے اپنا یہ خطاب لوئر سیکسنی میں کل اتوار پندرہ اکتوبر کو ہونے والے علاقائی پارلیمانی انتخابات کے حوالے سے ایک ریلی سے کیا۔ تھوماس ڈے میزیئر کا تعلق چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو سے ہے۔
جرمنی مسلمانوں کا گھر بن سکتا ہے، فراؤکے پیٹری
جرمن انتخابات: اے ایف ڈی کے خلاف احتجاجی مظاہرے
اپنے اس خطاب میں وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ کیتھولک مسیحیوں کی طرف سے ہر سال منایا جانے والا مذہبی تہوار ’آل سینٹس ڈے‘ ایک ایسا موقع ہوتا ہے، جب ملک کے اکثریتی طور پر کیتھولک آبادی والے علاقوں اور صوبوں میں عام تعطیل ہوتی ہے۔
ساتھ ہی ڈے میزیئر نے کہا، ’’اگر ایسا ہے تو ان علاقوں میں جہاں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں، ہم اس بارے میں کیوں غور نہیں کر سکتے کہ وہاں بھی کوئی مسلم عوامی تعطیل ہونا چاہیے۔‘‘ وزیر داخلہ کے اس خطاب کی ایک جزوی آڈیو ریکارڈنگ بعد ازاں regionalwolfsburg.de نامی ویب سایٹ پر بھی پوسٹ کی گئی۔
مہاجر اور اسلام مخالف پارٹی اے ایف ڈی پہلی بار پارلیمان میں
جرمن انتخابات: مسلم مخالف پارٹی تیسرے نمبر پر
اس آڈیو ریکارڈنگ کے مطابق تھوماس ڈے میزیئر نے مزید کہا کہ جرمنی میں وفاقی سطح پر زیادہ تر عوامی تعطیلات کا تعلق مسیحی عقیدے سے ہے، جو نئے امکانات پر غور کرنے کے باوجود آئندہ بھی اپنے وقت پر منائی جا سکتی ہیں۔
روئٹرز کے مطابق ڈے میزیئر کے اس موقف پر ان کے ساتھی قدامت پسند سیاستدانوں کی طرف سے تنقید میں کوئی دیر نہ لگی۔ اس بارے میں سی ڈی یو کے ایک سینیئر سیاستدان وولفگانگ بوسباخ نے جرمن اخبار ’بِلڈ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’جرمنی میں ہر کوئی اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق اپنے مذہبی تہوار منا سکتا ہے۔ لیکن آیا ریاست کو مستقبل میں کسی خاص قانون سازی کے ذریعے ایسی غیر مسیحی مذہبی تعطیلات کو بھی ایک طرح سے باقاعدہ تحفظ فراہم کرنا چاہیے، یہ ایک بالکل مختلف موضوع ہے۔‘‘
اسی طرح جنوبی صوبے باویریا میں چانسلر میرکل کی جماعت کی ہم خیال سیاسی پارٹی کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو کے ایک مرکزی اعلیٰ عہدیدار آلیکسانڈر ڈوبرِنٹ نے روزنامہ ’بِلڈ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’جرمنی کی مسیحی میراث پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔ ہم ملک میں کوئی بھی مسلم پبلک تعطیلات متعارف کرانے پر سرے سے کوئی غور ہی نہیں کریں گے۔‘‘
مسلمانوں کے حوالے سے جرمن سیاسی جماعتیں کیا سوچ رکھتی ہیں؟
جرمنی: مسلمانوں کے خلاف پرتشدد حملوں میں اضافہ
اس بحث کے شروع ہو جانے کے بعد وفاقی وزارت داخلہ کی ایک خاتون ترجمان نے کہا کہ تھوماس ڈے میزیئر کی سوچ پہلے کی طرح ابھی بھی یہی ہے کہ جرمنی میں عوامی تعطیلات بنیادی طور پر مسیحی نوعیت کی ہیں۔
جرمن آئین کے مطابق یہ اختیار وفاقی صوبوں کو حاصل ہے کہ وہ اپنے ہاں مذہبی تہواروں کے موقع پر عوامی تعطیلات کا فیصلہ خود کر سکتے ہیں اور اس بارے میں وفاقی وزارت داخلہ کو کوئی اختیار حاصل نہیں، چاہے یہ عوامی تعطیلات مسیحی مذہبی چھٹیاں ہوں یا ممکنہ طور پر مسلم تہواروں کے موقع پر متعارف کرائی جانے والی کوئی تعطیلات۔