1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم لیگ نون میں اختلافات، پارٹی تقسیم کا شکار

عبدالستار، اسلام آباد
10 فروری 2023

مریم نواز شریف کے چیف آرگنائزر بننے کے بعد مسلم لیگ نواز میں کئی اختلافی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں، جس کی وجہ سے کئی حلقے میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ پارٹی اختلافات اور تقسیم کا شکار ہورہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4NKC4
Pakistan | Pakistan Muslim League | Treffen in Lahore
تصویر: Privat

چند ہفتوں پہلے نون لیگی رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پارٹی کی پالیسیوں سے نالاں نظر آئے جب کہ اس سے پہلے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیلاسحاق ڈار سے اختلاف کرتے ہوئے نظر آئے۔ جس کے جواب میں سلمان شہباز نے مفتاح کو ہدف تنقید بنایا۔

نئی اختلافی آوازیں

نئی اختلافی آوازیں مسلم لیگ کے پی سے آرہی ہیں، جہاں مسلملیگ ن سے تعلق رکھنے والے سابق ایم پی اے شمعون یار خان اور ان کے والد سردار مہتاب عباسی پارٹی کی پالیسیوں سے ناخوش نظر آتے ہیں۔

مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سابق رکن خیبرپختونخواہ اسمبلی شمون یار خان کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی کی صوبائی قیادت تبدیل نہ ہوئی تو اگلے انتخابات میں پارٹی کو سیاسی طور پر سخت دھچکا لگ سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پارٹی کے وہ کارکنان جنہوں نے اخلاص کے ساتھ پارٹی کی خدمت کی ان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور صوبائی سطح پر پارٹی کے معاملات کو احسن طریقے سے نہیں چلایا جا رہا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں پارٹی کے ٹکٹ لینے کے لیے بہت سارے لوگ آگے  آئے تھے اور اب قومی اسمبلی کی کچھ نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں، جس پر پی پی ٹی آئی کے لوگوں نے استعفے دیے تھے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنے لوگ ٹکٹ لینے کے لیے آتے ہیں۔‘‘

شمون یار خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی سے پارٹی کو شدید نقصان ہوگا۔ ''کیونکہ نون لیگ اس حکومت میں نمایاں ہے۔ حکومت مہنگائی اور دوسرے معاملات کے حوالے سے جو بھی فیصلے کر رہی ہے، اس کا پارٹی کو شدید نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘

پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ

 موجودہ مسلم لیگ کو کئی حلقے جی ایچ کیو کے قریب سمجھتے ہیں۔ شمعون یار خان کا کہنا ہے کہ ہر جماعت میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو طاقتور حلقوں سے اچھے مراسم رکھتے ہیں۔ ''یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ طاقت ور حلقوں سے بات چیت ہو سکے۔ طاقتور حلقوں کے حوالے سے ہماری پارٹی میں بھی سخت گیر لوگ بھی ہیں اور ایسے افراد بھی ہیں جن کا رویہ نرم ہے۔ ماضی میں چوہدری نثار اور شہبازشریف کو نرم سمجھا جاتا تھا اور اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہیں۔‘‘

Wahlen in Pakistan I Nawaz Sharif
مریم نواز شریف کے چیف آرگنائزر بننے کے بعد مسلم لیگ نواز میں کئی اختلافی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیںتصویر: Arshad Butt/AP/dpa/picture alliance

مال بنانے والے آگے ہیں‘

پاکستان مسلم لیگ نواز جنرل مشرف کے دور میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے باجود شدید اختلافات کا شکار نہیں ہوئی۔ مشرف کے زیر عتاب رہنے والوں کا خیال ہے کہ پارٹی میں ان افراد کی اہمیت مل گئی ہے، جنہوں نے مشرف کے دور میں مال بنایا۔

سابق وفاقی وزیر،سابق گورنر کے پی اور سابق وزیر اعلٰی خیبر پختونخواہ سردار مہتاب احمد خان عباسی کا کہنا ہے کہ وہ خیبرپختونخواہ میں گزشتہ تین دہائیوں سے پارٹی کی خدمت کر رہے ہیں۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پارٹی میں مال بنانے والے آگے آگئے ہیں۔ صوبے کا صدر مشرف کے ساتھ رہا ہے اور انہوں نے فوائد اٹھائے۔

پاکستان: سنگین ہوتے ہوئے بحران پر قابو پانے کی کوششیں

مخلص کارکنان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے کارکنان دوسری پارٹیاں جوائن کر رہے ہیں۔‘‘

ایک صوبے تک محدود

مہتاب عباسی کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ پارٹی سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بالکل ختم ہوگئی ہے۔ '' اور ایک سازش کے تحت پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کیا جا رہا ہے۔  گزشتہ کئی مہینوں سے پارٹی کی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ صرف چند لوگ بیٹھتے ہیں اور وہ فیصلے کرتے ہیں۔‘‘

قیادت تک رسائی نہیں

مہتاب عباسی کا دعوی تھا کہ انہوں نے صورتحال سے میاں نواز شریف کو بھی آگاہ کیا ہے۔ ''جب جنوری میں میری ان سے ملاقات ہوئی، تو میں نے انہیں آگاہ کیا۔ اس کے علاوہ شہباز شریف کو میں کئی دفعہ بتا چکا ہوں اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس مسئلہ کو دیکھیں گے۔ میاں نواز شریف لندن میں ہیں اور شہباز شریف وزیراعظم ہیں اس لیے اب کارکنان کی قیادت تک رسائی ہی نہیں ہے۔‘‘

London Pakistan Nawaz Sharif Tochter Maryam Nawaz
نواز شریف کو ان اختلافات کا علم ہےتصویر: Reuters/H. McKay

مریم نواز کی وطن واپسی، فواد چودھری کا مزید ریمانڈ

پنجاب میں اختلافات

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ن لیگ تین صوبوں میں کمزور ہوچکی ہے لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پنجاب میں بھی پارٹی کی صورت حال کوئی بہت زیادہ اچھی نہیں ہے اور ن لیگ کے اس سیاسی گڑھ میں بھی اختلافات چل رہے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات میں شرکت اور دیگر معاملات میں پارٹی اختلافات کا شکار ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ن لیگ ضمنی انتخابات لڑنا نہیں چاہتی ہے لیکن پارٹی کے کئی رہنما ان میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ اویس لغاری نے اپنے بیٹے کو جعفر لغاری کی سیٹ پر نامزد کیا ہے۔ جاوید ہاشمی نے مریم نواز کے ملتان ورکرز کنونشن میں شرکت نہیں کی اور انہوں نے بھی ملتان سے ضمنی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائی ہے۔‘‘

احسن رضا کے مطابق ڈی جی خان میں مریم نواز نے حافظ عبدالکریم کو سائیڈ لائن کردیا ہے اور وہاں پر لغاریوں کو آگے کردیا ہے۔ '' اسی طرح نارووال میں دانیال عزیز کو احسن اقبال کے مقابلے میں ترجیح دی جارہی ہے جب کہ فیصل آباد میں دانیال چوہدری آگے آگے نظرآتے ہیں، جس کی وجہ سے رانا ثنا اللہ کے لوگ خوش نظر نہیں آتے۔‘‘

پنجاب میں کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

پارٹی کو خیرباد نہیں کہہ رہے

خیال کیا جاتا ہے کہ پارٹی میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر کچھ رہنما پارٹی کو چھوڑ بھی سکتے ہیں تاہم سابق گورنر کے پی اور معروف ن لیگی رہنما اقبال ظفر جھگڑا اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں، شاہد خاقان اور مہتاب عباسی سمیت کئی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ پرانے کارکنان کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور ایسا صرف کے پی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہورہا ہے۔ تاہم ہم پارٹی کو خیرباد نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اپنی شکایات پارٹی کے سامنے رکھ رہے ہیں۔‘‘

اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق شہباز شریف اور نواز شریف کو ان اختلافات کا  علم ہے۔ ''یہ باتیں میڈیا پر موجود ہیں تو یقینا میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو بھی اس حوالے سے علم ہوگا۔‘‘