مشرقی افغانستان میں داعش کی مسلح کارروائیاں
26 جون 2016خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان میں روز بہ روز متحرک ہوتی ہوئی شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘، جسے داعش کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، نے ننگرہار صوبے میں تازہ حملے کیے ہیں۔
داعش شام اور عراق میں فعال ہے اور وہاں اس نے متعدد علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ تاہم یہ تنظیم افغانستان میں بھی جڑیں پکڑ رہی ہے اور مقامی جنگ جوؤں کو ساتھ ملا کر کارروائیاں کر رہی ہے۔ طالبان کی اندرونی چپقلش اور دھڑے بندیوں کا بھی داعش فائدہ اٹھا رہی ہے۔
ننگرہار صوبے کے گورنر سلیم خان قندوزی کے مطابق سکیورٹی فورسز اور داعش کے عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں درجن بھر افغان فوجی اور عام شہری ہلاک جب کہ اٹھارہ زخمی ہوئے ہیں۔ تین روز سے جاری لڑائی کے دوران حکومتی فورسز نے سو سے زائد داعشی حملہ آوروں کو ہلاک کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ ان اعداد و شمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔
قندوزی نے داعش پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش کسی کی عزت نہیں کرتی۔ وہ عورتوں اور بچوں تک کو قتل کرنے سے باز نہیں آتی۔ وہ مدرسوں، اسکولوں اور مساجد تک کو تباہ کر رہی ہے۔‘‘
ننگرہار میں موجود حکومتی اہل کاروں کے مطابق داعش کے حامیوں نے کوٹ ضلعے میں پچیس مکانات نذر آتش کر دیے ہیں اور کم از کم پانچ شہریوں کو اِغوا کر لیا ہے۔
صوبائی پولیس سربراہ زورآور زاہد کا کہنا ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں پولیس اہل کار اور فوجی اس علاقے میں داعش سے نبردآزما ہیں اور علاقائی حکام نے کابل سے مزید فوجی دستے طلب کر لیے ہیں۔
کابل میں ایک اجتماع کے دوران افغان سول سوسائٹی فیڈریشن کے سربراہ صادق انصاری نے مقامی حکومتی اہل کاروں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ داعش کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ننگرہار کے حکام کو ’’ہر خون کے قطرے کا حساب دینا چاہیے تاکہ دوسرے صوبوں کے حکام کو اس سے سبق حاصل ہو۔‘‘
ماہرین کی جانب سے بارہا توجہ دلانے کے باوجود افغان حکومت داعش کے خطرے کو اتنی اہمیت نہیں دے رہی جتنا کہ وہ طالبان کو دیتی ہے۔