مصر کے ’سرکاری صحافی‘ ساکھ کی بحالی میں مصروف
15 فروری 2011سماجی میل ملاپ کی ویب سائٹس ٹویئٹر اور فیس بک کے ذریعے مصر کا نوجوان حلقہ نئی سماجی آزادی کا لطف اٹھا رہا ہے۔ اس کے برعکس روایتی قدامت پسند میڈیا سے وابستہ افراد کو اپنا سابقہ مقام برقرار رکھنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
سرکاری ٹیلی وژن نیل نیوز اور سرکاری اخبار ال احرام سے وابستہ صحافی بالخصوص مشکل میں گھر گئے ہیں۔ ملکی آبادی کی اکثریت کو اب بین الاقوامی میڈیا تک رسائی حاصل ہے، جو حکومت مظالف مظاہروں کی براہ راست کوریج فراہم کر رہا تھا۔
ایک وقت میں جب الجزیرہ اور بی بی سی جیسے ادارے مصر بھر میں جاری مظاہروں کی شدت سے متعلق رپورٹیں پیش کر رہے تھے اسی دوران نیل نیوز اور ال احرام سے وابستہ صحافی ’سب ٹھیک ہے‘ کی اطلاعات فراہم کر رہے تھے۔ نیل نیوز کی 41 سالہ اینکر سہا ال نقش کا کہنا ہے کہ قاہرہ حکومت انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی تھی۔
نقش سمیت ان کی بعض دیگر ساتھیوں نے اب نیل نیوز چھوڑ دیا ہے۔ نقش کا کہنا ہے کہ ان سرکاری اداروں میں کام کرنے والا عملہ اب تبدیلی کے عمل کا حصہ بن رہا ہے۔
مصر میں حسنی مبارک کے استعٰفے کے ساتھ ہی جب یہ تاثر عام ہوا کہ ملکی فوج عوامی تحریک کو نہیں دبائے گی تو مقامی میڈیا کے رویے میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ تاہم مصری عوام کی اکثریت میں سرکاری میڈیا اپنی ساکھ بحال نہ کرسکی، جن کے نزدیک سرکاری میڈیا سے وابستہ افراد ’جھوٹے‘ ہیں۔ اس چھاپ کو مٹانے کے لیے یہ صحافی اب سرگرم ہوگئے ہیں۔
اس کی ایک مثال Al-Gomhouria اخبار ہے۔ مبارک کے حامی سمجھے جانے والے اس اخبار سے وابستہ درجنوں صحافی اب اس اخبار کے ایڈیٹر اور مینیجر کی تبدیلی کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ سہا ال نقش جیسے مصری صحافی جو بظاہر مجبورًا سابق صدر مبارک کی ’شاندار قیادت کے گن گاتے تھے‘ اب اس میڈیا کی آزادی کی تحریک کے رکن بن گئے ہیں۔
نقش کا کہنا ہے کہ اگرچہ مبارک اب اقتدار میں نہیں رہے تاہم ان کے سابق خوشامدی اب بھی سرکای میڈیا میں طاقتور پوزیشن میں ہیں، جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ملکی سطح پر ریڈیو اور ٹیلی وژن کے صحافیوں کی ایک آزاد و متحد یونین کے قیام کو اس مسئلے کا ایک حل سمجھتی ہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عدنان اسحاق