معافی کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے، ترک وزیر اعظم
23 جولائی 2011ترک وزیر اعظم رجب طیب ائردوآن نے ہفتے کے دن کہا،’ جب تک اسرائیل معافی نہیں مانگتا، بحری قافلے میں ہلاک ہونے والوں کے گھر والوں کو ہرجانہ ادا نہیں کرتا اور غزہ کی ناکہ بندی ختم نہیں کرتا، انقرہ حکومت اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی‘۔
ترک وزیر اعظم نے یہ بیان فلسطینی سفارتکاروں کے ساتھ ہونے والی ایک ملاقات کے دوران دیا۔ اس ملاقات میں فلسطینی صدر محمود عباس بھی شریک تھے۔ ائردوآن کے بقول گزشتہ برس غزہ کے لیے روانہ کیے گئے ترک بحری قافلے پر اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی ایک جارحانہ عمل تھا، جس کے نتیجے میں 9 ترک امدادی کارکن ہلاک ہو گئے تھے۔
مئی 2010ء میں بین الاقوامی سمندری حدود میں رونما ہونے والے اس واقعہ کے بعد ترکی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی، جو ابھی تک برقرار ہے۔ اس واقعہ کے فوری بعد انقرہ حکومت نے تل ابیب سے اپنے سفیر کو واپس بلوا لیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات شاید کبھی بھی ویسے نہیں ہو سکتے، جیسا کہ اس کارروائی سے قبل تھے۔
اسرائیلی حکومت کا مؤقف ہے کہ اس کے فوجیوں نے یہ حملہ اپنے دفاع میں کیا تھا۔ اسرائیل کے مطابق غزہ کی ناکہ بندی اس لیے کی گئی ہے تاکہ وہاں برسر اقتدار حماس جنگجوؤں کے لیے اسلحہ کی اسمگلنگ روکی جا سکے۔
اسرائیل اس کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی ذمہ داری قبول کرنےاور معافی مانگنے پر تیار نہیں ہے۔ اسرائیلی اسٹریٹیجک امور کے وزیر Moshe Yaalon نے کہا،’ ہم معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ اس کا مطلب ہو گا کہ ہم اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر انقرہ حکومت اس واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے کوئی فنڈ قائم کرتی ہے تو اسرائیل حکومت اس میں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے تاہم ہلاک شدگان کو براہ راست کوئی ازالہ یا ہرجانہ نہیں دیا جائے گا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امتیاز احمد