مقتول پاکستانی وزیر بھٹی کی آبائی گاؤں میں تدفین
4 مارچ 2011اسی دوران آج جمعہ سے پاکستان میں شہباز بھٹی کے قتل پر تین روزہ سوگ کا آغاز ہو گیا اور ملک بھر میں سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ شہباز بھٹی کی آخری رسومات اسلام آباد کے فاطمہ جناح چرچ میں ادا کی گئیں۔ ان رسومات میں شہباز بھٹی کے اہل خانہ کے علاوہ پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور اسلام آباد میں موجود غیر ملکی سفارتکاروں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
شہباز بھٹی کی آخری رسومات کے ایک حصے کے طور پر کلیسائی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا،
’’آج کا دن یوم سیاہ ہے۔ شہباز بھٹی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے قاتلوں کو ہم ضرور انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔‘‘
اس موقع پر شہباز بھٹی کے قریبی ساتھی اور آل پاکستان کرسچین سوسائٹی کے سربراہ روبنسن اصغر نے کہا کہ شہباز بھٹی کا قتل پاکستان کی اقلیتوں کے لیے ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا،’’شہباز بھٹی کا مشن پوری قوم کا مشن تھا اور یہ مشن یہی ہے کہ ہمارے (اقلیتوں کے ساتھ) زیادتی ختم ہو۔ اور کسی بھی طور توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔ ہم اپنے اس مشن کو جاری رکھیں گے۔‘‘
بعد ازاں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپٹی شہباز بھٹی کی میت ہیلی کاپٹر کے ذریعے فیصل آباد کی تحصیل سمندری کے ایک گاؤں خوش پور پہنچا دی گئی، جہاں مسیحی برادری کے ہزاروں افراد نے اپنے اس رہنما کی میت وصول کی۔ اس موقع پر بہت جذباتی مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔
ادھر اسلام آباد میں آج جمعہ کو شہباز بھٹی کے قتل پر قومی اسمبلی میں بحث دوسرے روز بھی جاری رہی۔ ارکان اسمبلی نے شہباز بھٹی کے قتل کو ملک کا امن برباد کرنے کی سازش اور سکیورٹی اداروں کی نااہلی قرار دیا۔ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی جمشید دستی نے وزیر اعظم گیلانی اور وزیر داخلہ رحمان ملک سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔
اس کے جواب میں وزیر داخلہ رحمان ملک نے اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ شہباز بھٹی کا قتل سکیورٹی کی ناکامی نہیں تھا اور اگر شہباز بھٹی کی سکیورٹی کی ناکامی ثابت ہو جائے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے تیار ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا، ’’ایوان فیصلہ کرے کہ ہمیں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کوئی جوڈیشل کمیشن بنانا چاہیے یا پھر کوئی پارلیمانی کمیٹی قائم کرنی چاہیے۔ لیکن ایک چیز میں واضح کر دوں کہ اس واقعے میں کوئی سکیورٹی کی کوتاہی نہیں تھی۔ کوئی کمیشن یا ایک کمیٹی، جو بھی بنائیں، میری درخواست ہو گی کہ اس کا سربراہ اپوزیشن کے کسی رکن اسمبلی کو بنائیں۔‘‘
رحمان ملک کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت وہ خود بھی دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں پہلے نمبر پر ہیں اور ان کے بعد شیری رحمان اور پھر فوزیہ وہاب کے نام آتے ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان بھی شہباز بھٹی کے قتل کو سکیورٹی کی خامی قرار دے چکی ہیں، جس کے بعد یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ رحمان ملک کو اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے اندر سے بھی شہباز بھٹی کے قتل کے المناک واقعے پر تنقید کا سامنا ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں