’ميں اب تھک چکا ہوں‘، چیچنیہ کا گوریلا لیڈر عمروف
2 اگست 2010باريش گوريلا ليڈر عمروف ماسکوکے انڈر گراؤنڈ ريلوے نظام پر دہشت گردانہ حملے کی ذمہ ذاری قبول کر چکے ہيں۔ اسی سال ہونے والے اس دہشت گرانہ حملے ميں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دوکُو عمروف نے انٹرنیٹ کی يو ٹيوب اور چند دیگر ويب سائٹس پر کہا کہ وہ تھک چکے ہيں اور اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونا چاہتے ہيں۔
عمروف نے ايک ويڈيو پيغام ميں کہا: ’’ہم سب نے متفقہ طور پر يہ فيصلہ کيا ہے کہ ميں آج پير کو مستعفی ہوجاؤں گا۔‘‘ اس ويڈيو ميں اس باغی ليڈر کو ايک نامعلوم جنگلاتی مقام پر خاکی پتلون اور نيلے سویٹر ميں ملبوس زميں پر بيٹھے دکھايا گيا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ميں اب تھک چکا ہوں۔‘‘
دوکُو عمروف کے عسکریت پسندانہ سوچ کے حامل ’امارات قفقاذ‘ نامی اسلامی گروپ کے نئے رہنما اسلم بيک وادالوف ہوں گے، جن کے بارے ميں عمروف نے کہا کہ وہ ’جوان اور زيادہ توانا‘ ہيں۔ اب اسلم بيک کو شمالی قفقاذ کے علاقے میں ایک آزاد اسلامی رياست کے قيام کے لئے جنگ کی قيادت سونپ دی گئی ہے۔
46 سالہ عمروف نے اپنے پيغام ميں يہ بھی کہا: ’’اس کا مطلب لیکن يہ نہيں کہ ميں جہاد سے ہاتھ روک لوں گا۔‘‘ انہوں نے اپنے الفاظ اور عمل ہر طرح سے اپنے جانشين کی مدد کا وعدہ بھی کيا۔ عمروف نے انٹرنيٹ ویب سائٹس پر اپنے حاميوں سے اپيل کی کہ وہ اسلم بيک سے وفاداری کا مظاہرہ کريں۔
اسلم بيک کے بارے ميں بہت کم معلومات موجود ہيں ليکن چیچن باغيوں کی ويب سائٹس کے ذريعے اتنا ضرور معلوم ہے کہ وہ سن 1990 کے عشرے ميں چيچن عليحدگی پسندوں اور روسی حکومت کے درميان ہونے والی دونوں جنگوں ميں شريک تھے۔
دستبردار ہونے والے چيچن ليڈر عمروف کے چار منٹ پر مشتمل ويڈيو ميں دو اور عسکريت پسندوں کو بھی دکھايا گيا ہے۔ ان ميں سے ايک لمبی سياہ داڑھی والے اسلم بيک ہيں جنہوں نے کہا کہ عمروف نے جو کچھ کہا، وہ اس ميں اضافہ کرنا نہيں چاہتے۔ اسلم بيک فوجی يونيفارم ميں ملبوس تھے۔ دوسرا عليحدگی پسند بھی فوجی وردی پہنے ہوئے تھا۔ اس نے اپنا نام مصطفیٰ بتايا ليکن اس کے بارے ميں کسی قسم کی کوئی معلومات دستياب نہيں ہيں۔
عمروف ابو عثمان کے نام سے بھی جانے جاتے ہيں ۔ وہ کئی برسوں سے قفقاذ کی بغاوت ميں مرکزی کردار ادا کر رہے ہيں۔ اس جنگ ميں ہر سال پوليس اور سکيورٹی اہلکاروں کے مابین لڑائی میں سينکڑوں افراد مارے جاتے ہيں۔ عمروف ايک ايسی جنگ کی قيادت کرتے رہے ہیں، جو شروع ميں ماسکو سے آزادی حاصل کرنے والی عليحدگی پسند تحريک کے بعد اب ايک وسيع تر اسلامی تحريک بن چکی ہے اور جس کا مقصد قفقاذ کے پہاڑی علاقے ميں ايک امارت قائم کرنا ہے۔
جون کے اواخر ميں روسی صدر ميدويديف کے امريکہ کے دورے کے موقع پر امريکی وزير خارجہ ہليری کلنٹن نے عمروف کو مالی اور دوسری طرح کی امداد روکنے کے لئے اقدامات کئے۔ اگرچہ روسی حکام کئی مرتبہ عمروف کی ہلاکت کا اعلان کر چکے ہيں ليکن قفقاذ کے گھنے جنگلات ميں مقيم اس چيچن باغی ليڈر کو گزشتہ تقريباً دو عشروں سے کبھی بھی گرفتار نہیں کیا جا سکا۔
اکتوبر سن 2007 ميں عمروف نے خود کو امارات قفقاذ کا سربراہ قرار ديا تھا اور روس کے کئی جنوبی علاقوں میں بکھرے ہوئے باغی گروپوں کو اکٹھا کر کے شمالی قفقاذ ميں شریعت يعنی اسلامی قانون نافذ کرنے کا عزم کيا تھا۔ ماسکو کے انڈر گراؤنڈ ريلوے نظام پر حملے کے بعد عمروف نے 31 مارچ کو شمالی قفقاذ کے انتہا پسندوں کی ایک ويب سائٹ پر روس کے نام اپنے پیغام میں کہا تھا: ’’جنگ تمہاری گليوں اور سڑکوں تک پہنچ جائے گی اور تم کو خود اپنی جانوں کا خوف لاحق ہوجائے گا۔‘‘
عمروف مشہور باغی ليڈر شاميل باسائيف کے ساتھيوں ميں شمار ہوتے ہيں، جنہوں نے قفقاذ کے علاقے اور روس میں بہت سے خونریز حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ ان ميں سن 2004 ميں بيسلان کے ایک اسکول پر کیا گیا حملہ بھی شامل ہے، جس ميں 330 سے زائد ہلاکتيں ہوئی تھيں۔ مرنے والوں میں زيادہ تر بچے تھے۔
عمروف سن 2006 ميں باسائيف کے روسی فوج کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد چيچن گوريلا تحريک کے قائد بنے تھے۔ يہ دونوں رہنما چيچنيہ کی عليحدگی پسند تحريک کی پہلی صف ميں شامل رہے تھے۔ اس عليحدگی پسند تحريک ميں تقریباً ايک لاکھ شہری بھی مارے جا چکے ہیں، جو اس علاقے کی زيادہ تر مسلم آبادی کا 10 فيصد بنتے ہیں۔
شمالی قفقاذ کی جمہوريہ داغستان،چيچنيہ اور انگوشيتیا میں مستقل طور پر دہشت گردانہ حملے ہوتے رہتے ہيں اور عليحدگی پسندوں نے روسی قبضے کے خلاف دہشت گردانہ جنگ کا تہيہ کر رکھا ہے۔
چند مغربی خبر رساں اداروں کے مطابق اس قسم کی افواہيں بھی گردش کر رہی ہيں کہ دوکُو عمروف يا تو زخمی ہو چکے ہيں يا انہيں زہر دے ديا گيا ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک