مُلا عمر کو ہمارا پیغام دیں، حسین حقانی
29 اکتوبر 2011حسین حقانی نے یہ بات جمعے کو شکاگو کونسل برائے عالمی امور میں ایک خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے امریکی مقاصد میں پاکستان بھی یقینی طور پر شامل ہے، لیکن دونوں ملکوں کو رکاوٹوں کا سامنا ہے، جن میں پاکستان میں امریکہ کے خلاف پائے جانے والے جذبات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا: ’’پاکستان اور امریکہ کے درمیان اتفاق رائے ہے کہ ہمیں مفاہمت کے لیے کام کرنا ہو گا۔‘‘
حقانی نے کہا: ’’اکثر اوقات مسئلہ اپنے مقصد پر ڈٹے ہوئے وہ تھوڑے سے لوگ ہیں، جو تشدد کی راہ پر ہیں اور وہ ہتھیاروں کے زور پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے جمعرات کے اس بیان کو بھی سراہا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ افغان انتہاپسندوں سے مذاکرات کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ساتھ ہی میدان جنگ میں ان سے لڑ بھی رہا ہے۔
حسین حقانی نے کہا: ’’کسی حل کے لیے ان لوگوں سے ہم بات کیوں نہیں کر سکتے؟ یقینناﹰ، ایسا کرنا ہمیں اچھا لگے گا۔ اگر آپ کے پاس مُلا عمر (طالبان کا سربراہ) کا پتہ ہے تو برائے مہربانی ہماری طرف سے ان سے یہ کہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ سوال بدستور موجود ہیں کہ آیا افغان انتہاپسند مذاکرات کے لیے تیار ہیں، جن میں سے متعدد کے ٹھکانے پاکستان میں ہیں اور وہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کی وجہ رہے ہیں۔
اوباما انتظامیہ افغانستان سے اپنی فوج واپس بلاتے ہوئے ایک دہائی سے جاری جنگ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ ایسے میں اس کی توجہ کابل حکومت اور انتہاپسندوں کے درمیان امن معاہدے کو یقینی بنانے پر ہے۔ تاہم کسی حل پر پہنچنے کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں دراڑ دکھائی دیتی ہے۔ امریکی حکام پاکستان پر افغانستان میں تشدد کو بالواسطہ ہوا دینے کا الزام لگاتے ہیں۔
تاہم پاکستان کی شکایت ہے کہ اس نے انتہاپسندی کا بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ اسلام آباد حکام امریکہ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ انتہاپسندوں کے خطرے پر قابو پانے کے لیے اس کی کوششوں کو نظرانداز کر رہا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز
ادارت: افسر اعوان