مہاجرین سے متعلق جرمن پالیسی نہیں بدلے گی، میرکل
28 جولائی 2016وفاقی دارالحکومت برلن میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انگیلا میرکل کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گردانہ حملے کرنے والے جرمنی میں ’کمیونٹی کے احساس، ہماری فراخ دلی اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے کے جذبے‘ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ میرکل نے کہا، ’’ہم اس کوشش کو پوری شدت سے مسترد کرتے ہیں۔‘‘
ہزاروں پناہ گزین اپنے وطنوں کی جانب لوٹ گئے
ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن
گزشتہ ہفتے جرمنی میں چار پر تشدد حملے ہوئے جن میں سے دو کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ ان واقعات کے بعد جرمن چانسلر اپنی چھٹیاں منسوخ کر کے آج جمعرات اٹھائیس جولائی کو خاص طور پر برلن میں میڈیا سے مخاطب ہوئیں۔
اس نیوز کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چانسلر میرکل کا کہنا تھا، ’’ایک ہفتے کے اندر اندر چار سفاکانہ واقعات کا پیش آنا انتہائی افسوسناک اور مایوس کن ہے۔‘‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان حملوں سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ جرمن حکام ملک پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھے ہیں۔
انگیلا میرکل نے حالیہ عرصے کے دوران فرانس، بیلجیم، ترکی، امریکا اور جرمنی میں دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے کہا، ’’ہماری اقدار کی بنیادوں کو منہدم کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات ایسی جگہوں پر رونما ہوئے جہاں ہم میں سے کوئی بھی کسی بھی وقت موجود ہو سکتا تھا۔‘‘
جرمن سربراہ حکومت کا کہنا تھا کہ ان بھیانک واقعات کے باوجود وہ جرمنی میں اپنی حکومت کی مہاجر دوست پالیسی پر عمل درآمد جاری رکھنے کے عزم پر قائم ہیں۔ گزشتہ برس میرکل نے شام اور دیگر شورش زدہ خطوں سے جنگوں اور تشدد سے بھاگ کر پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کے لیے ملکی سرحدیں کھول دینے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد گیارہ لاکھ سے زائد تارکین وطن جرمنی آئے تھے۔
میرکل نے مزید کہا، ’’مجھے آج بھی اس بات پر یقین ہے کہ ’ہم یہ کر سکتے ہیں‘۔ یہ ہماری تاریخی ذمہ داری ہے اور عالمگیریت کے اس دور میں یہ ایک تاریخی امتحان بھی ہے۔ پچھلے گیارہ مہینوں کے دوران ہم نے اس سلسلے میں بہت سی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔‘‘
گزشتہ ہفتے کے دوران جرمنی میں جو چار پر تشدد واقعات رونما ہوئے، ان میں سے تین میں پناہ گزین ملوث تھے۔ دو حملوں کی ذمہ داری نام نہاد ’دولت اسلامیہ‘ یا داعش نے قبول کر لی تھی۔
داعش نے جن حملوں کی ذمہ داری قبول کی، وہ دونوں واقعات جنوبی جرمن صوبے باویریا میں پیش آئے تھے۔ باویریا کے شہر انسباخ میں ایک میوزک فیسٹیول کے باہر ایک خود کش شامی مہاجر نے بم حملہ کیا تھا، جس میں بارہ افراد زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح باویریا ہی کے شہر وُرسبرگ میں کلہاڑی اور خنجر سے مسلح بظاہر ایک افغان تارک وطن نے ایک ریل گاڑی میں مسافروں پر حملہ کر کے چار افراد کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
ان واقعات کے بعد جرمن چانسلر پر ملک میں مہاجرین کو پناہ دینے کے سلسلے میں شدید دباؤ تھا۔ انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت اے ایف ڈی کے علاوہ میرکل کی اپنی پارٹی اور ایک حکومتی اتحادی جماعت کی طرف سے بھی ملک میں لاکھوں مہاجرین کو پناہ دیتے رہنے پر تنقید کی جا رہی تھی۔
’یورپ کی جنگ اسلام سے نہیں اسلامک اسٹیٹ سے‘
جرمن چانسلر میرکل کا جمعرات کے روز یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی میں مسلح اسلام پسندوں کے حملوں کے بعد سبھی مسلمانوں کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ میرکل کے مطابق، ’’ہم اسلام کے خلاف کوئی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ ہماری لڑائی ’اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) کے خلاف ہے۔‘‘
چانسلر میرکل نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صرف داعش کے خلاف جنگ ہی انتہائی اہم نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی جرمنی میں دیگر جرائم کا مقابلہ کرنا بھی اشد ضروری ہے تاکہ عوام میں مجموعی احساس تحفظ کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔