مہاجرین کا تنازعہ یورپی ممالک کے درمیان اختلافات کا باعث
12 اپریل 2011اس مسئلے کے حل پر غور کے لیے یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کا اجلاس پیر کو لکسمبرگ میں ہوا۔ تاہم اٹلی کے وزیر داخلہ روبرٹو مارونی وہاں سے نکلے تو کافی غصے میں تھے۔ انہوں نے اپنے ہم منصبوں سے کہا تھا کہ ان کے ملک میں آنے والے پناہ گزینوں کے حوالے سے روم حکومت کی مدد کی جائے۔
روبرٹو مارونی نے کہا، ’ہم نے یکجہتی کے لیے کہا تھا، لیکن ہم سے کہا گیا ہے کہ تنہا ہی اس مسئلے کا سامنا کریں۔ میں حیران ہوں کہ اب بھی یورپی یونین کا حصہ بنے رہنے کی کوئی وجہ ہے۔’
انہوں نے کہا، ’ہم اپنے بل بوتے پر جو کر رہے ہیں، وہ جاری رکھیں گے۔ بری سنگت سے تنہائی ہی بہتر ہے۔’
روم حکومت نے گزشتہ ہفتے اس اعلان پر سفارتی محاذ آرائی شروع کی تھی کہ شمالی افریقہ سے آنے والے ہزاروں مہاجرین کو چھ ماہ کے رہائشی اجازت نامے جاری کیے جائیں گے۔ اس طرح انہیں شینگن زون میں سفر کی آزادی حاصل ہو جائے گی۔
اس کے ردِ عمل پر فرانس نے اٹلی کی ساتھ اپنی سرحد پر دستاویزات کی جانچ کا عمل سخت کر دیا تھا جبکہ جرمنی اور آسٹریا نے بھی فرانس کی پیروی کا عندیہ دیا ہے۔ فرانس کے وزیر داخلہ كلود غيان نے کہا ہے کہ سرحد پر موجود اہلکار اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ملک میں داخل ہونے والوں کی تمام دستاویزات درست ہیں۔ انہوں نے کہا، ’بصورت دیگر فرانس کو یہ کہنے کا حق ہو گا کہ اٹلی شرائط پر پورا نہ اترنے والے افراد کو اپنے ہاں واپس قبول کرے۔‘
جرمنی کے وزیر داخلہ ہانس پیٹر فریڈرش کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانا، اور انہیں یورپی ساحلوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے تیونس کے حکام کے ساتھ مل کرنے کام کرنے کا انحصار اٹلی پر ہے۔
انہوں نے کہا، ’اس حوالے سے نئے قوانین متعارف کرانا یورپ کے مفاد میں نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم توقع کرتے ہیں کہ اٹلی موجودہ قواعد و ضوابط کا احترام کرے۔’
جرمن وزیر داخلہ نے امید ظاہر کی کہ اٹلی اپنے فرائض پورے کرے گا۔ خیال رہے کہ رواں برس اٹلی میں چھبیس ہزار مہاجریں پہنچ چکے ہیں، جن میں سے اکیس ہزار کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق تیونس سے ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد