مہاجرین کے بحران میں نیٹو مدد کرے، اطالوی وزیر داخلہ
9 جون 2018خبر رساں ادارے روئٹرز نے اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اٹلی کی نئی حکومت غیر قانونی مہاجرین کی ملک میں آمد کو روکنے کی خاطر سخت اقدامات کرے گی۔
جمعہ آٹھ جون کی شام سالوینی نے روم میں صحافیوں کو بتایا کہ اس مقصد کی خاطر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو بھی مدد کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے جنوبی ساحلی علاقے مہاجرین کی اٹلی آمد کے حوالے سے اہم ہیں، اس لیے وہاں خصوصی انتظامات کرنا ہوں گے۔
روم میں نئی ملکی حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ’لیگ‘ کے رہنما سالوینی کا یہ بھی کہنا تھا کہ قریبی جزیرہ ریاست مالٹا کو بھی مہاجرین کے بحران میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
مہاجرت مخالف سیاستدان سالوینی کے بقول انسانی حقوق کے ایسے ادارے ،جو سمندروں سے مہاجرین کو بچا کر یورپ لا رہے ہیں، ان کی کارروائیوں کا بھی سختی سے جائزہ لیا جائے گا۔ تاہم مالٹا نے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے مہاجرین کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
سالوینی نے، جو اٹلی کے نائب وزیر اعظم بھی ہیں، کہا، ’’میں نیٹو کی مدد لینے کے حق میں ہوں۔ ہم ایک حملے کی زد میں ہیں۔ ہم نیٹو کو کہیں گے کہ وہ ہمارا دفاع کرے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایسے تحفظات شدید ہیں کہ دہشت گرد بھی مہاجرین کے اس بحران میں یورپ پہنچ رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بیان جمعے کی شام کامو نامی شہر میں دو ایسے بس ڈرائیوروں سے اپنی ملاقات کے بعد دیا، جن کا کہنا تھا کہ ٹکٹ کا مطالبہ کرنے پر چار مہاجرین نے ان ڈرائیوروں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
مغربی دفاعی اتحاد کی طرف سے اپنے روایتی حریف روس پر توجہ مرکوز رکھنے پر تبصرہ کرتے ہوئے سالوینی کا کہنا تھا، ’’اٹلی پر جنوب سے حملہ ہو رہا ہے، مشرق سے نہیں۔‘‘
نیٹو روس سے متصل یورپ کے مشرقی علاقوں میں اپنی عسکری سرگرمیوں کو زیادہ فعال بنانے کی کوشش میں ہے تاکہ روس کی طرف سے کسی ممکنہ عسکری مداخلت کا مناسب جواب دیا جا سکے۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اٹلی کے جنوبی ساحلی علاقوں میں کم از کم چھ لاکھ مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔ یہ مہاجرین کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے ہوئے افریقہ سے اٹلی پہنچے ہیں۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے اٹلی آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق رواں برس بحیرہ روم عبور کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے مہاجرین کی تعداد میں بھی کمی ہوئی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں سمندر برد ہونے والے مہاجرین کی تعداد اب تک قریب پانچ سو رہی ہے جبکہ گزشتہ برس وسطی بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہونے والے مہاجرین کی تعداد قریب ساڑھے اٹھائیس سو رہی تھی۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے