میانمار میں دو روز میں 104 ہلاکتیں
27 اگست 2017میانمار کے مغربی حصے میں بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب جھڑپوں کا سلسلہ جمعرات اور جمعہ کی شب سے شروع ہوا تھا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب روہنگیا عسکریت پسندوں نے میانمار کی پولیس کی پوسٹوں پر سلسلہ وار حملے کیے۔
دوسری طرف میانمار میں روہنگیا آبادی کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی طرف سے سویلین افراد کو ہلاک کرنے اور گھروں کو نذر آتش کرنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ میانمار کی رہنما اور ریاستی مشیر آنگ سان سوچی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جمعرات کی شب سے شروع ہونے والے تشدد کے نتیجے میں اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 96 تک پہنچ گئی ہے۔ اس بیان کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اکثریت روہنگیا حملہ آوروں کی ہے جبکہ 12 سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
میانمار کی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے اس بیان میں پہلی مرتبہ سویلین ہلاکتوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس بیان کے مطابق ہلاک شدگان میں سے چھ کی شناخت ہندوؤں کی طور پر ہوئی ہے جو عسکریت پسندوں کی کارروائی میں ہلاک ہوئے۔
میانمار بدھ مت کے ماننے والوں کا اکثریتی ملک ہے مگر ملک کی شمالی ریاست راکھین میں قریب ایک ملین روہنگیا مسلمان بھی آباد ہیں تاہم میانمار حکومت انہیں اقلیت کی حیثیت دینے کو تیار ہے اور نہ ہی انہیں اس ملک کا شہری تصور کرتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے میانمار حکومتی ذرائع کی طرف سے جاری ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق دو روز کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 104 بتائی ہے۔ 2016ء میں میانمار کی ریاست راکھین میں شروع ہونے والے پر تشدد واقعات اور روہنگیا کے خلاف اقدامات کے بعد سے اب تک 87 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان اپنی جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کی طرف سے روہنگیا کے خلاف میانمار حکومتی فورسز پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس عالمی ادارے کی تحقیقات کے مطابق روہنگیا آبادی کے خلاف حکومتی فوج کی کارروائیاں نسل کشی کے زمرے میں آسکتی ہیں۔