میانمار کی حکومت متاثرہ علاقے اپنے قبضے میں لے لے گی
27 ستمبر 2017خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس اعلان سے ان لاکھوں روہنگیا مہاجرین کی واپسی پر بھی سوالات آن کھڑے ہوئے ہیں، جو راکھین میں جاری تشدد کی وجہ سے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
روہنگیا کو بین الاقوامی برادری کے تعاون کی اشد ضرورت ہے، اقوام متحدہ
روہنگیا بحران: سات ممالک نے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا
فیس بُک نے روہنگیا عسکری گروپ پر پابندی لگا دی
آنگ سان سوچی چین کے پہلے دورے پر
میانمار کی حکومت کا الزام ہے کہ بستیوں کو نذرآتش عسکریت پسند روہنگیا نے کیا، جب کہ دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تشدد کے واقعات کے تناظر میں مجموعی طور پر چار لاکھ اسی ہزار روہنگیا بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں اور روہنگیا کے خلاف میانمار کی فوج کے اقدامات ’نسل کشی‘ کے زمرے تک میں آ سکتے ہیں۔
میانمار کے وزیر برائے سماجی ترقی، ریلیف اور تعمیر نو میات آئے نے راکھین ریاست کے مرکزی شہر سِتوے میں ایک مقامی اخبار سے بات چیت میں کہا، ’’قانون کے مطابق جلایا جانے والا علاقہ حکومت کی ملکیت میں آ چکا ہے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ میات آئے اس کمیٹی کے بھی سربراہ ہیں، جس کا کام راکھین میں جاری کشیدگی میں کمی کے لیے مختلف تجاویز پر عمل درآمد کی نگرانی کرنا ہے۔
آئے نے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس متاثرہ علاقے میں ترقی دیکھنے والی ہو گی۔ یہ بات اہم ہے کہ میانمار کے قانون کے مطابق قدرتی آفات یا تنازعے کے بعد علاقے کی بہبود اور ترقی کے کام کی نگرانی حکومت کرتی ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا کہ آیا علاقہ چھوڑ کر فرار ہو جانے والے روہنگیا کو دوبارہ ان علاقوں میں بسایا جائے گا یا نہیں یا ان افراد کی واپسی کب ممکن ہو گی۔
انسانی حقوق کے گروپ سیٹیلائیٹ تصاویر کی مدد سے بتاتے ہیں کہ روہنگیا افراد کے قریب چار سو دیہات میں سے نصف سے زائد اس تشدد میں جلا کر خاکستر کیے جا چکے ہیں۔
بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا کا الزام ہے کہ میانمار کی فوج اور بدھ مت کے ماننے والے شدت پسند روہنگیا کے خلاف تشدد کی ایک منظم چلا رہے ہیں، جس میں قتل عام، جنسی زیادتیاں اور شدید تشدد کے واقعات شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے میانمار پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ میں ملوث ہے، تاہم میانمار کی حکومت نے اقوام متحدہ کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔