میرکل کی مہاجرین دوست پالیسی پر فرانس و روس کی تنقید
13 فروری 2016فرانسیسی وزیر اعظم مانوئل والس نے ایک جرمن اخبار سے کی گئی اپنی ایک گفتگو میں کہا کہ تارکین وطن کے لیے میرکل کی کھلے دروازے کی پالیسی کے باعث ہی لاکھوں مہاجرین یورپ آئے ہیں۔ والس کا کہنا تھا، ’’اگرچہ وقتی طور پر جائز ہے لیکن طویل المدتی بنیادوں پر پائیدار نہیں ہے۔‘‘
والس کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی سمیت یورپ بھر میں نئے تارکین وطن کو پناہ دینے کی گنجائش ختم ہو رہی ہے۔ فرانسیسی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں واضح کر دینا چاہیے کہ یورپ انتظامی طور پر اس قابل نہیں ہے کہ وہ شام، عراق اور افریقہ کے تمام مہاجرین کو پناہ دے سکے۔‘‘
لاکھوں مہاجرین یورپ بھیج دیں گے، ایردوآن کی دھمکی
جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟
والس کے بقول یورپی ممالک کو اپنی سرحدوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ میرکل نے اس بحران میں انتہائی کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب تک مہاجرین کو جرمنی آنے سے نہیں روکا ہے۔ تاہم ان کے خلاف تنقید ميں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب میرکل نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ چند یورپی ممالک ترکی کی جانب سے تارکین وطن کی آمد و رفت پر قابو پانے کے بدلے رضاکارانہ طور پر مہاجرین کو سیاسی پناہ دینے کے لیے تیار ہیں۔
برلن میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میرکل کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ یورپی ممالک ترکی کو مالی معاونت فراہم کرنے پر بھی راضی ہیں۔
ابھی تک یورپی یونین کی سطح پر پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ پالیسی نہیں بنائی جا سکی۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اسی وجہ سے ’ہم خیال ممالک‘ کے ساتھ مل کر کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔
فرانس کے علاوہ روسی وزیر اعظم دمتری میدویدف نے بھی میرکل کی مہاجرین دوست پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ میدویدف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’سادہ لفظوں میں یورپ کے دروازے تارکین وطن کے لیے کھول دینا اور ہر ایک کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دے دینا صرف حماقت ہے۔ پناہ گزینوں سے متعلق یورپی پالیسی کلی طور پر ناکام اور خوفناک ہے۔‘‘
جرمن وزیر دفاع اُرزولا فان ڈیئر لاین کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے مسئلے پر یورپی ممالک کے اختلافات کی وجہ سے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو یورپ کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
میونخ سیکورٹی کانفرنس میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے لاین نے یورپی ممالک پر زور دیا کہ وہ جنگوں سے بھاگ کر یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو خوش آمدید کہتے رہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’پانچ سو ملین نفوس پر مشتمل براعظم یورپ کی بنیادیں ڈیڑھ دو ملین مہاجرین کو پناہ دینے سے کیسے ہل سکتی ہیں؟‘‘