نئی عالمی بدنظمی بطور نیا عالمی نظام، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
15 اگست 2014اس وقت کئی ڈرامائی بحرانوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ بات یوکرائن پر بھی صادق آتی ہے اور مشرق وسطیٰ کے خطے پر بھی، جہاں کم از کم اسرائیل اور حماس کے مابین نئی پانچ روزہ فائر بندی کے نتیجے میں لوگوں کو تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، لیکن کسی حد تک سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ شامی خانہ جنگی کا بہت ہلاکت خیز ہونا بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ شام ایک ایسا ملک ہے جو ٹوٹ رہا ہے اور جہاں انسانی ہلاکتوں کی تعداد عنقریب ہی دو لاکھ تک پہنچ جانے کا شدید خطرہ ہے۔
شمالی عراق میں تو نئی سرحدی لکیریں کھینچنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور وہ بھی ناقابل تصور بربریت کا مظاہرہ کرنے والے ایسے عسکریت پسندوں کی طرف سے جو خدا کے نام پر تمام سرحدوں کو نابود کرتے جا رہے ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ نامی عسکریت پسند تنظیم کے ان جنگجوؤں کے زیر اثر علاقہ شام میں حلب سے لے کر شمالی عراق میں نیم خود مختار کردستان کی سرحدوں تک پھیل چکا ہے۔
اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسند موجودہ نظام کو، چاہے وہ کیسا بھی ہے اور کتنا بھی کمزور ہو چکا ہے، پوری طرح تباہ کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ اس وقت موجود کسی بھی طرح کی سرحدوں، ریاستوں اور حکومتوں کو تسلیم نہیں کرتے اور ان کے لیے بس ایک ہی بات اہم ہے، اسلام اور قرآن کی وہ تشریح جو وہ خود کرتے ہیں۔
سفارت کاروں کا المیہ یہ ہے کہ معاملات کی پرانی تفہیم یکدم غیر مؤثر ہو گئی ہے۔ امریکا کردوں کی مدد کر رہا ہے اور یوں بالواسطہ طور پر بغداد اور تہران میں ان شیعہ رہنماؤں کی جو سنی عقیدے کے حامل دہشت گردوں کے گروپ IS کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ لیکن امریکا کے ایران کے ساتھ تعلقات تو ابھی تک خراب ہیں۔
شام کے بارے میں امریکا یہ نہیں جانتا کہ آیا وہ ابھی بھی بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی کو اپنی کوششوں کا حصہ رکھنا چاہتا ہے۔ یہ ساری صورت حال ایک ایسے نئے عالمی نظام کی عکاس ہے جو سفارتی بدنظمی سے عبارت ہے۔ اس بدنظمی سے متعلق کسی بھی سوال کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔
نوبل امن انعام یافتہ باراک اوباما نے عراق سے امریکی فوجی انخلاء کا فیصلہ جلد کر لیا تھا کیونکہ وہ فوجی مداخلتوں کی کامیابیوں پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن کچھ نہ کچھ تو انہیں اب بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار کو اپنے اثرات کے ضیاع کا سامنا ہے۔ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ اس خطے میں امریکا کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ لیکن آج اوباما کو کمزور، غیر فیصلہ کن سوچ کا حامل اور اپنی بات نہ منوا سکنے والا رہنما سمجھا جانے لگا ہے۔
یورپ کو بھی اپنے بڑے بحران یعنی یوکرائن کے مسئلے کو اب لازمی طور پر حل کر لینا چاہیے۔ اس تنازعے میں روسی صدر پوٹن اب تک خود کو شاطرانہ عدم شفافیت کا ماہر ثابت کر چکے ہیں۔ یورپی یونین اور امریکا روس پر پابندیاں تو لگا چکے ہیں لیکن یہ مسئلہ صرف ٹیلی فون پر بار بار کی مشاورت سے حل نہیں ہو گا۔
بات یہ ہے کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران کی جانے والی فوجی مداخلتوں کے نتائج شاذ و نادر ہی کامیاب رہے ہیں۔ اس کی مثالیں افغانستان سے لے کر لیبیا تک میں دیکھنے میں آچکی ہیں۔ آج نئی عالمی بدنظمی نیا عالمی نظام بن چکی ہے، جس میں متواتر نئے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں۔