’نواز شریف نے طبل جنگ بجا دیا‘
13 اگست 2017جی ٹی روڈ پر جاری رہنے والے چار روزہ سفر لاہور کے بعد سید علی ہجویری کے دربار کے باہر ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کا واضح طور پر کہنا تھا کہ وہ نہ تو ڈرتے ہیں اور نہ ہی انہیں جان کی پروا ہے اور وہ ملک کی تقدیر بدلنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ان کے الفاظ میں پاکستان کے ساتھ پچھلے ستر سالوں میں تماشا کرنے والوں کا احتساب کیا جانا چاہیے۔ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ 20 کروڑ عوام کا ملک ہے اس پر چند لوگوں کی اجارہ داری ختم ہونی چاہیے۔
’نواز شریف لاہور کی طرف اور ملک بحران کی طرف بڑھ رہا ہے‘
گاما پہلوان کی نواسی پارلیمانی نشست کے لیے لڑیں گی
نواز شریف کا کہنا تھا، ’’مشرقی پاکستان الگ کر دیا گیا، بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے، کون ہیں جو پاکستان کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق ووٹ کی حرمت کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے آئین کو بدلنا ہوگا۔ نواز شریف نے چئیرمین سینٹ رضا ربانی کی پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کی تجاویز پر ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
نواز شریف نے عدلیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’یہاں تیس تیس سال سے مقدمے چل رہے ہیں، دادے کا مقدمہ پوتے کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہم ایسا نظام لائیں گے جس میں 90 دنوں میں لوگوں کو سستا اور فوری انصاف مل سکے۔‘‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ انہیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا۔ انہوں نے جلسے کے شرکا سے پوچھا کیا یہ کسی وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کی مناسب وجہ ہے، لوگوں نے اس پر نہ نہ کے نعرے لگائے۔ اس پر نواز شریف نے کہا کہ عوامی نمائندوں کو گھر بھیجنے والوں کو روکنا ہو گا۔
نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ 14 اگست کو اپنے انقلابی پروگرام کا اعلان کریں گے۔جلسے کے دوران جب نواز شریف ملک میں امن ا امان کی صورتحال بہتر بنانے کی اپنی کوششوں کا ذکر کر رہے تھے عین اسی وقت وہاں کوئٹہ دھماکے کی اطلاع ملی ، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی اس وقت سٹیج پر موجود تھے۔نواز شریف نے کوئٹہ سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے ساتھ بھی اظہار ہمدردی کیا۔
پاکستان میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی اقتدار سے برطرفی کے بعد پہلے احتجاجی پروگرام میں عوام کی بڑی تعداد میں شمولیت کی وجہ تو سمجھ آتی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا نواز شریف آنے والے دنوں میں اپنا یہ احتجاجی مومنٹم برقرار رکھ پاتے ہیں یا نہیں؟
نواز شریف کے جی ٹی روڈ مشن کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف روڈ شو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے دوران نواز شریف پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے، میڈیا کے ذریعے اپنا بیانیہ ووٹرز تک پہنچانے میں تو کامیاب رہے لیکن مبصرین کے مطابق ان کی کامیابیوں کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کتنی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کر پاتے ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف جیل سے بچنے کے لیے ڈرامہ کر رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو گرینڈ ڈائیلاگ کے نام پر این آر او نہیں کرنے دیں گے۔ ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ میاں صاحب آپ بتائیں کہ آپ کتنے وزرائے اعظم کو نکالنے کی سازش میں شریک تھے۔ اقتدار کا نشہ اترتے ہی آپ کو گرینڈ ڈائیلاگ یاد آ گیا اب آپ کی چال بازی نہیں چلے گی۔ پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا ہے کہ پیدائشی سرمایہ کار کا انقلاب کی بات کرنا مضحکہ خیز ہے۔
اگرچہ نواز شریف کی ریلی کی کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے نواز شریف کے حامیوں اور مخالفوں کی طرف سے متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں لیکن بعض لوگوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر نواز شریف کی ریلی ناکام تھی تو پھر کیبل آپریٹروں کے ذریعے ٹی وی چینل بند کروانے کی کیا ضرورت تھی۔