نواز شریف کی واپسی’ مفاہمت ہوگی یا کشیدگی بڑھے گی‘
25 ستمبر 2017شیر از بیک اس وقت ٹویئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے۔ کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وہ کسی ڈیل کے نتیجے میں آئے ہیں لیکن کچھ اور کی رائے یہ ہے کہ وہ تصادم کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کی کوشش کریں گے۔
تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے نواز شریف کی واپسی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں سیاسی درجہ ء حرارت بڑھے گا اور نواز شریف اپنے خلاف ہونے والے فیصلے کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنے کی کوشش کریں گے اور لوگوں کی ہمدریاں حاصل کریں گے۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ فوج اس سارے مسئلے سے الگ تھلگ رہنا چاہتی ہے۔ میاں صاحب کو یہ شکایت تھی کہ آرمی کو اپنے بندے جے آئی ٹی میں شامل نہیں کرنے چاہیے تھے اور دوسری ان کی شکایت یہ تھی کہ جے آئی ٹی کی مدد آرمی نے کی، ورنہ وہ اتنی تیزی سے ثبوت نہیں لاسکتے تھے۔ لیکن اگر آرمی ایسا نہیں کرتی تو لوگ اور میڈیا ان کے پیچھے پڑ جاتے۔ تو اپنی ان شکایات کو لے کر وہ آرمی پر تنقید کریں گے لیکن میرے اپنے خیال میں اسٹیبلشمنٹ اس پر مشتعل نہیں ہوگی بلکہ بیانات کے ذریعے وضاحت پیش کر دے گی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی درجہ حرارت میں حدت بڑھنے کے باوجود بھی موجودہ سویلین حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔’’میرا نہیں خیال کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ ہے۔ اگر نواز شریف نے بار بار بھی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید بھی کی، اس کے باوجود بھی آرمی کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کرے گی۔‘‘
ان کے بقول نواز شریف اس لیے واپس آئے ہیں کیونکہ پارٹی میں پھوٹ پڑ چکی ہے۔’’میاں صاحب کو بتایا گیا تھا کہ پارٹی میں اختلافات شدید ہوتے جارہے ہیں اور اگر وہ نہیں آئے تو پارٹی منقسم ہوجائے گی۔ اسی وجہ سے وہ اچانک آئے ہیں اور اب وہ پارٹی کو تقسیم سے بجانے کی کوشش کریں گے۔‘‘
آج میاں صاحب سے چوہدری نثار کی ملاقات اس بات کو صیح بھی اس بات کی عکاس ہے کہ سابق وزیرِ اعظم پارٹی میں بڑھتے ہوئے اختلافات پر سخت پریشان ہیں۔ مسلم لیگ کے ایک اہم رہنما کے مطابق دونوں رہنماوں نے ایک دوسرے سے گلے شکوے کئے ہیں۔ اس رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ’’میاں صاحب کی پوری کوشش ہے کہ پارٹی میں کوئی دھڑے بندی نہ ہو اور پارٹی اگلے انتخابات کے لیے متحد رہے۔ چوہدری نثار سے ملاقات بھی پارٹی کو متحد رکھنے کی ایک کوشش ہے۔‘‘
’نواز شریف نے طبل جنگ بجا دیا‘
نواز شریف کی نااہلی سے جمہورریت مستحکم ہوئی ہے، عمران خان
راجہ ظفر الحق نے اس تاثر کو زائل کیا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی بڑھے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’میرے خیال میں چیزیں بہتری کی طرف جائیں گی۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ قانونی تقاضے پورے ہوں ۔ گو کہ نیب کی پھرتی سے ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ نا انصافیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن پھر بھی ہم یہ چاہیں گے کہ قانون اپنا راستہ لے۔ میاں صاحب نے پہلے بھی تمام عدالتوں اور جے آئی ٹی کا سامنا کیا ہے اور وہ اب بھی ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا کہ نیب یہ سب کچھ خود کر رہا ہے ، یا اس کے پیچھے کوئی اور ہے۔ تو انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔‘‘
اس سوال پر کہ کیا نواز شریف پارٹی کی صدارت کریں گے، راجہ ظفر الحق نے کہا، ’’ابھی سینیٹ کا پاس کردہ بل قومی اسمبلی میں دوبارہ آئے گا۔ اگر بل ایوانِ زیریں میں پاس ہوگیا تو پھر نواز شریف پارٹی کی قیادت کریں گے اور ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔‘‘