نیب قانون میں ترامیم کالعدم: ’ آخری چھکا‘ مگر فاتح کون؟
15 ستمبر 2023سپریم کورٹ کی طرف سے شہباز حکومت کی نیب قانون میں کی گئیں ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس اہم پیش رفت پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ملک میں احتساب سے متلعق قوانین کو اس وقت اٹک جیل میں پابند سلاسل سابق وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ چیلنج کیا تھا۔ اسی لیے عمران خان کے حامی اس عدالتی فیصلے کو چئیرمین پی ٹی آئی کی ایک اور بڑی سیاسی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
دوسری جانب اس طرح کے خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ اس فیصلے کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے سیاسی امور کے تجزیہ کار سلمان عابد نے بتایا کہ اس فیصلے سے قومی احتساب بیورو مضبوط ہوگا اور اندیشہ ہے کہ اسے سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانے اور سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کیا جا ئے گا۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے سلمان عابد نے کہ، ''اس فیصلے کے بعد الیکشن کا التوا بھی ممکن ہے۔ حالات ''مائنس آل‘‘ کی طرف بھی جا سکتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ انیس سو پچاسی کی طرح نئی سیاسی نرسری کے پودے بھی میدان میں لا نے کی کوشش کر سکتی ہے۔‘‘ ان کے بقول بدلتے حالات میں ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی کا عمل بھی کھٹائی میں پڑ جائے۔ انہوں نے مزید کہا،''اس فیصلے سے جمہوریت کمزور، اسٹیبلشمنٹ مضبوط اور سیاسی سپیچ میں کمی ہوئی ہے۔'' مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے سیاست دانوں کو چلانے والا ریموٹ کنٹرول اب پھر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں آ گیا ہے‘‘
ٹائمنگ کی اہمیت
یہ فیصلہ جمہوریت کے عالمی دن کے موقعے اور چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی ملازمت کے آخری روز سنایا گیا۔ اس سے پہلے بھی جمعے کے روز سنائے جانے والے کئی فیصلے بعض سیاست دانوں کے لئے کافی بھاری ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن سلمان عابد کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں انتخابات سر پر ہیں۔ اس موقعے پر اپنی مرضی پر اصرار کرنے والی ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے سیاست دانوں کے سروں پر تلوار لٹک گئی ہے اب ان کو سیاسی دباو میں لانا آسان ہو گیا ہے۔''جو ان کی بات نہیں مانے گا وہ زیر عتاب آئے گا اور اس طرح سیاست کو کنٹڑول کرنا آسان ہوگا۔ ‘‘
یاد رہے پاکستان میں لوگوں کی بڑی تعداد طاقتور حلقوں کو عمران کو ہٹا کر ان لوگوں کو ملک پر مسلط کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتی رہی ہے جن کو خود اسٹیبلشمنٹ کے حلقے بدعنوان قرار دیتے رہے ہیں۔
فیصلہ کیا ہے؟
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پانچ ستمبر کو نیب ترمیمی قانون کے خلاف فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی اس بینچ کا حصہ تھے۔دو کے مقابلے ایک کے تناسب سے سنائے گئے اس فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
نیب آرڈیننس میں دو درجن سے زائد، جو ترامیم کی گئی تھیں ان میں سے چند کچھ یہ تھیں۔ نیب پچاس کروڑ روپے سے کم مالیت کے مقدمات کی تفتیش نہیں کر سکے گا۔ نیب فراڈ اور بدعنوانی کے صرف ایسے مقدمات کی تفتیش کرے گا، جن میں متاثرین کی تعداد ایک سو سے زائد ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ نیب سے ٹیکسوں میں ہیر پھیر اور عدم ادائیگی پر کارروائی کرنے کا اختیار بھی لے لیا گیا تھا اور متعدد ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔
تازہ ترامیم کی روشنی میں مختلف افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام تحقیقات، عدالتی کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جانی تھیں۔تاہم عدالت کی جانب سے ان ترامیم کو مسترد کیے جانے کے بعد اب یہ تمام انکوائریاں اور مقدمات دوبار کھل جائیں گے اور نیب حکام ہی ان پر کام جاری رکھیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ پلی بارگین سے متعلق کی گئی نیب ترمیم بھی کالعدم تصور ہوں گی۔
فیصلے کے اثرات کیا ہوں گے؟
نیب حکام نے سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے استفسار پر اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ان ترامیم سے مستفید ہونے والوں میں متعدد سابق وزرائے اعظم سمیت ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما بھی شامل ہیں۔
قانونی اور سیاسی امور کے تجزیہ کار منیب فاروق کے مطابق عام تاثر کے برعکس اس فیصلے کا اثر لندن سے وطن واپسی کے لیے پر تولنے والے نواز شریف پر نہیں ہو گا کیونکہ انہیں پہلے ہی سزا سنائی جا چکی ہے اور وہ مفرور ہیں اور انہیں عدالت کے سامنے اپنے آپ کو سرنڈر کرنا ہے۔ منیب فارووق بتاتے ہیں ،'' سپریم کورٹ کے سامنے ابھی ایک کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے موجود ہے، جس میں بنچ بنانے کے طریقہ کار کے بارے میں ابھی فیصلہ ہونا ہے۔ لگتا ہے کہ عدالت کے نیب قانون میں ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل اب ایک پہلے سے بڑا بنچ سنے گا۔‘‘
بعض قانونی ماہرین کو اس جواب کی تلاش ہے کہ اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کون دائر کرے کا۔ کیا حکومت ااس کے خلاف عدالت جائے گی؟ اس بارے میں نگران وزیراعظم ابھی بات کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔ تو پھر کیا اس فیصلے سے انفرادی طور پر متاثر ہونے والے لوگ عدالت جائیں گے؟ بتایا جارہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے قانونی ماہرین یہ گتھی سلجھانے کے لیے الگ الگ سر جوڑے بیٹھے ہیں۔
فیصلے پر ردعمل
پاکستان عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ جسٹس بندیال اس فیصلے کے ذریعے جاتے جاتے چھکا مار گئے ہیں اور اب معاف کروائے گئے مقدمات دوبارہ کھلیں گے۔ مسلم لیگ نون نے اس فیصلے کو متنازعہ بنچ کا متنازعہ فیصلہ قرار دیا ہے۔ سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق اس فیصلے کے بعد اب عمران کو نوے، نوے روز کے لئے نیب کی تحویل میں رہنا پڑے گا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ان کے لئے غیر متوقع نہیں ہے۔
یہ فیصلہ کس کا ہے؟
اس بارے میں ممتاز صحافی سید طلعت حسین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''جن کا خیال ہے کہ بندیال نے خود سے ہی نیب ترامیم فارغ کی ہیں وہ بھولے ہیں۔ یہ فیصلہ براہ راست آئندہ انتخابات سے متعلق ہے اس کے بعد نون اور پیپلز پارٹی کو سیدھی لکیر پر چلنا ہوگا۔ عمران جیل میں اور دوسری جماعتیں پرانی نیب کے ابلتے تیل میں۔ نیا نہ پرانا ، ہمارا پاکستان ‘‘
کچھ بھی نہیں بدلے گا؟
تجزیہ کار مزمل سہروردی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس فیصلے کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اول تو نظر ثانی کی اپیل پر یہ فیصلہ خارج ہو جائے گا اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر جب تک سیاست دان کو سزا نہ ہوجائے وہ الیکشن لڑ سکتا ہے تمام ملزم سیاست دان الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔
ان کے خیال میں اس معاملے میں متاثرہ سیاست دانوں کے کیسز نہیں چلیں گے اگر چلے تو گواہ پیش نہیں ہوں گے اور پراسیکیوشن کا عمل مکمل نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا، ''در اصل ملک کے طاقتور حلقے جو چاہیں گے وہ ہوگا اور انہیں قیدی نمبر آٹھ سو چار اور ایون فیلڈ کے مکین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے، ان کے پاس اتنا کم وقت ہے کہ وہ کوئی نئی کنگز پارٹی بھی کھڑی نہیں کر سکتے۔‘‘
چیف جسٹس بندیال کو تاریخ کیسے یاد رکھے گی؟
اپنا آخری عدالتی فیصلہ سنانے کے بعد چیف جسٹس بندیال نے اپنے دفتری عملے سے الوداعی ملاقات کی اور پھر وہ فوراﹰ عدالت سے رخصت ہوگئے۔ اس سے پہلے انہوں نے میڈیا اور وکلا کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو عدالتی فیصلوں پر بات کرنی چاہیے لیکن ججوں کی ذات کو نشانہ نہیں بنانا چایئے۔
جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے اٹھائیسویں چیف جسٹس کی حیثیت سے 16 ستمبر بروز ہفتہ ریٹائر ہو جائیں گے، جمعے کا دن ان کا آخری ورکنگ ڈے تھا۔ ان کی جگہ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان میں انصاف کی سب سے بلند مسند پر براجمان ہوں گے وہ 18 ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھال لیں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال دو فروری دو ہزار بائیس کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے تھے۔ وہ ایک سال سات ماہ 14 دن اس عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے بطور چیف جسٹس اپنے کچھ متنازع فیصلوں، عدلیہ کے مجموعی کردار اور التوا میں پڑے مقدمات کے سبب تنقید کی زد میں رہے۔
ان کے فیصلوں کے خلاف پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھائی گئی۔ ان کے دور کو متنازع فیصلوں، ججز کی تقسیم، ہم خیال ججز کو ساتھ ملاکر سینیئر ججز کو نظراندز کرنے، مخصوص جماعت یا ایک لیڈر کی طرف جھکاؤ، ذاتی پسند، ناپسند ، عدالتی بنچوں کی تشکیل میں اجارہ داری کے معاملات پر تنقید کا سامنا بھی رہا۔ لیکن انہیں ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت اور اس کے وکلا دھڑے کی سپورٹ بھی میسر رہی۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے باوجود بعض فیصلے آزادانہ طور پر کرنے پر جسٹس بندیال کی تحسین کرتے رہے۔