پاکستان میں نظام احتساب کی شفافیت پر بحث میں نئی تیزی
12 اکتوبر 2022پاکستان کے ایک سنئیر سیاستدان اور قانونی ماہر چوہدری اعتزاز احسن نے نیب قوانین میں ترمیم کو پولیٹیکل انجینئرنگ قرار دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی سربراہ نے نون لیگ کے رہنماؤں کو بچا کر ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ گیارہ اکتوبر بروز منگل لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اعتزاز احسن نےکہا تھا کہ مریم نواز شریف، شریف شہباز اور نواز شریف کے خلاف کرپشن کے 'اوپن شٹ'کیسز تھے۔
سیاستدانوں کے خلاف ریفرنسز کی واپسی، تنقید کا طوفان
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ انہیں جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ چکے ہیں اور وہ اخبار میں رپورٹ ہو چکا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اعلی سطحی جرائم کی تفتیش کے حوالے سے مہارت کی کمی ہے۔
پی ٹی آئی کی حمایت
پاکستان تحریک انصاف چودھری اعتزاز احسن کے اس بیان کو اپنے کرپشن مخالف بیانئے کی فتح قرار دے رہی ہے۔ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ چودھری اعتزاز احسن کا بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ شریف فیملی کے خلاف جو الزامات لگاتے رہے ہیں، ان میں صداقت ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے فوڈ سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چودھری اعتزاز احسن نہ صرف ایک سیاستدان ہیں بلکہ ان کا شمار صف اول کے قانونی ماہرین میں ہوتا ہے۔ ان کی قانون پر بہت گہری نظر ہے اور یہاں تک کہ مخالفین بھی انکی قابلیت سے انکار نہیں کر سکتے۔
نئے ڈی جی نیب پی ٹی آئی کے نشانے پر
جمشید اقبال چیمہ کے مطابق انک پارٹی چوہدری اعتزاز احسن کی اس بات سے بالکل متفق ہے کہ شریف فیملی کے خلاف کرپشن کے کیسز بالکل واضح تھے اور یہ کہ ایک شخص نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے انہیں این آر او دیا۔
جمشید اقبال چیمہ کے مطابق مقصود چپڑاسی کے کیس میں بہت زیادہ پیش رفت ہوچکی تھی اور اس میں بڑی حد تک تفتیش بھی ہوچکی تھی جبکہ ثبوت بھی اکٹھے کیے جا چکے تھے۔ '' اور اگر یہ مقدمہ شفاف انداز میں چلایا جاتا تو یقیناﹰ سزائیں ہوتیں۔ لیکن ان کے بقول اس سے بچنے کے لیے نیب قوانین میں ترمیم کی گئی، جو اس ملک کے ساتھ ایک بہت سنگین مذاق ہے۔
بیان کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے
ن لیگ کا کہنا ہے کہ چوہدری اعتزاز احسن سیاسی طور پر کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں اور ان کی اپنی جماعت بھی اب انہیں اتنی اہمیت نہیں دیتی جتنی کہ ماضی میں دی جاتی تھی۔
پنجاب اسمبلی: ارکان اسمبلی کی بولیاں لگانے والوں کا احتساب کون کرے گا؟
ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نہ ہی شکایت کرے گی اور نہ ہی وہ ان کے بیان کو سنجیدہ لے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' کرپشن کے مقدمات کے حوالے سے اعتزاز احسن بالکل عمران خان کی زبان بولتے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں بھی کرپشن کے حوالے سے وہی زبان استعمال کی، جو عمران خان استعمال کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب سیاسی جماعتیں میاں نواز شریف اوردیگر سیاسی رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے مقدمات کے حوالے سے ایک کمیشن بنانا چاہتی تھیں، تو اعتزاز احسن اس کے ٹرم آف ریفرنس ایسے بنا کر لائےکہ صرف نواز شریف کو ٹارگٹ کیا جائے۔''
پرویز رشید کے مطابق کیوں کہ نوازشریف ہر معاملے میں سرخرو ہو رہے ہیں اور وقت نے ثابت کردیا کہ ان پر کرپشن کا ایک بھی مقدمہ ثابت نہیں ہوا۔ ''اس لیے عمران خان اور اعتزاز احسن کو شدید تکلیف ہے کیونکہ اعتزاز احسن نے بھی اسی نوعیت کے الزامات ماضی میں نواز شریف کے خلاف لگائے تھے اب جب یہ الزامات غلط ثابت ہورہے ہیں تو وہ اپنی شرمندگی سے بچنے کے لئے اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔''
شریف فیملی کے خلاف مقدمات کمزور ہیں
تاہم قانونی ماہرین جمشید اقبال چیمہ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کے خیال میں شریف فیملی کے خلاف جو مقدمات بنائے گئے تھے ان کی وجوہات سیاسی تھیں، قانونی نہیں۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف قانونی ماہر شاہ خاور نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' نواز شریف کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے ایک مانیٹرنگ جج مقرر کیا۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنی۔ اور پھر اس جج کو تاریخ بھی دی گئی۔ ان تمام واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کرپشن کے حوالے جو نواز شریف کے خلاف مقدمات تھے ان کی نوعیت بنیادی طور پر سیاسی تھی قانونی نہیں تھی۔''
ہائی کورٹ پر سوال اٹھانے کی کوشش
شاہ خاور کے مطابق چوہدری اعتزاز احسن کا بیان بنیادی طور پر ہائی کورٹ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ ''آپ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے ایک علمی گفتگو کر سکتے ہیں اور اس پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تنقید بھی کر سکتے ہیں۔ قانونی دلائل بھی دیے جاسکتے ہیں۔ اعلی عدلیہ یا ہائی کورٹ یہ دیکھتی ہیں کہ مقدمات کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ مریم نواز شریف کو ہائی کورٹ نے رہا کیا ہے اور یقیناﹰ انہوں نے وہ تمام ثبوت کو دیکھا ہوگا جو نیب عدالت میں پیش کیے گئے تھے اور جب وہ ثبوت سے مطمئن نہیں ہوں گے، اسی صورت میں ہی مریم کو رہا کیا گیا ہوگا تو اس طرح کی بات کرنا بنیادی طور پر پر ہائی کورٹ کی ساکھ پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے۔''