1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو فوجی انخلاء: افغان حکومت کے لئے پریشانی

9 مئی 2010

اگلے ہفتےجب اپنے دورہء واشنگٹن کے دوران افغان صدر کرزئی اپنے امریکی ہم منصب باراک اوباما سے والہانہ انداز میں ہاتھ ملا رہے ہوں گے، تو اس وقت افغان عوام کو امریکہ سے اس عزم کی توقع ہوگی کہ وہ انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔

https://p.dw.com/p/NJkK
تصویر: AP / Fotomontage: DW

امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ امریکہ جولائی 2011ء تک افغانستان سے اپنی افواج واپس بلا لے گا، افغان حکام سخت اضطراب اور پریشانی کا شکار ہیں۔ افغان عوام فوجی انخلاء کے اس اعلان کو بالکل اسی کیفیت سے تشبیہ دے رہے ہیں، جب انیس سو نواسی اور انیس سو نوے میں سوویت فوجوں کے انخلاء کے بعد امریکہ نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔

Obama / Afghanistan / Karsai / Kabul
صدر اوباما نے چند ہفتے قبل افغانستان کا ایک اچانک دورہ بھی کیا تھاتصویر: AP

غالبا اگلے ہفتے کرزئی اور اوباما کی واشنگٹن میں مجوزہ ملاقات میں اس نکتے کو بنیادی حیثیت حاصل رہے گی۔ افغان حکام کا مطالبہ ہے کہ امریکہ اور اتحادی ممالک گزشتہ نو برسوں سے جاری جنگ کو ادھورا چھوڑ کر افغان عوام کو ایک مرتبہ پھر عسکریت پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہ چلے جائیں۔ شاید امریکی افواج کے انخلاء کے اعلان نے ہی کرزئی اور ان کی انتظامیہ کو طالبان کے ساتھ بات چیت اور کسی امن معاہدے کے لئے مجبور کیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہی وہ صورتحال تھی جس کے باعث کرزئی نے کچھ عرصے قبل پے در پے امریکہ اور اتحادی ممالک کے خلاف بیانات دئے اور قندھار میں مجوزہ آپریشن کی مخالفت بھی کی۔

افغان وزیردفاع عبدالرحیم وردک نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ افغانستان کو امریکہ اور اتحادی ممالک کی جانب سے ایک مضبوط عزم اور مشترکہ لائحہء عمل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند یہی چاہتے ہیں کہ افغانستان کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کے ارادے متزلزل ہو جائیں۔

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے امریکی بیانات میں قدرے ابہام بھی پایا جاتا ہے۔ ایک طرف صدر اوباما اس یقین کا اظہار کر چکے ہیں کہ افغانستان سے امریکی افواج سن دو ہزار گیارہ کے وسط تک واپس آنا شروع ہو جائیں گی تو دوسری طرف وزیردفاع رابرٹ گیٹس کا موقف ہے کہ فوجی انخلاء اس وقت تک عمل میں نہیں آئے گا جب تک کہ افغان سیکیورٹی فورسز اپنے ملک میں قیام امن کی ذمہ داری خود اٹھانے کی اہل نہ ہو جائیں۔ بعض افغان مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے دی گئی اس مبہم ڈیڈ لائن کا ایک مقصد افغان صدر کرزئی کو دباؤ میں مبتلا رکھنا ہے تاکہ وہ کرپشن کے خاتمےسمیت دیگر انتظامی معاملات میں عالمی مطالبات کو تسلیم کرتے رہیں۔

USA Afghanistan Dänemark Treffen Barack Obama und General Stanley McChrystal Flughafen Kopenhagen
صدر اوباما افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہ جنرل میک کرسٹل کے ہمراہتصویر: AP

وردک کے مطابق افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کو افغان عوام کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں۔’’افغان شہریوں کا عمومی موقف یہ ہے کہ عالمی برادری ایک مرتبہ پھر افغان عوام کو طالبان کے سامنے بے یار و مددگار چھوڑ دے گی۔‘‘

صدر کرزئی کی طرف سے امریکہ مخالف بیانات کے بعد ایک طرف تو اس کشیدگی کے تناظر میں افغان صدر پر ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے امریکی دباؤ میں کچھ کمی آئی، دوسری جانب صدارتی انتخابات میں بے ضابطگیوں کے بارے میں کرزئی کے مغرب مخالف بیانات سے ان کے خلاف وہ تنقیدی بیانات بھی کچھ کم ہوئے، جن میں انہیں مسلسل نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں