وزیر اعظم اور چیف صاحب
19 اگست 2019آخرکار وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع نے بظاہر عمران خان کے اقتدار کو مستحکم کر دیا۔ اس توسیع کا اشارہ وزیر اعظم کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں بھی نظر آ رہا تھا۔ امریکا اور افغان طالبان میں ممکنہ امن معاہدہ ایک اہم موڑ پر ہے، جس کے باعث یہ توسیع بڑی اہم ہے۔ لیکن اس فیصلے کے ملک کی داخلی صورت حال پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اپوزیشن کو مایوسی ہو گی اور حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہو گا۔
کم و بیش دو دہائیوں پر مبنی صحافتی کیریئر کے دوران نو وزرائے اعظم کو دیکھنے کا موقع ملا۔ یقین مانیے کسی وزیراعظم کے پاس وہ اختیار تھا نہ حمایت جو وزیراعظم عمران خان کو آج حاصل ہے۔ یعنی کوئی مانے یا نہ مانے وزیراعظم عمران خان ہرگز کٹھ پتلی وزیراعظم نہیں بلکہ مکمل طور پر بااختیار وزیراعظم ہیں۔
اس کی کچھ حالیہ مثالیں پیش خدمت ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو ایک طاقتور شخصیت نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکو تبدیل کردیں۔ بزدار کی جگہ ایسا وزیراعلیٰ لائیں جو انتظامی امورکا تجربہ رکھتا ہو اور پنجاب جیسے صوبے کو سنبھالنے کی صلاحیت بھی۔ وزیراعظم نے یہ بات سنی ان سنی کردی۔
مرکز میں وفاقی کابینہ کے بعض وزرا کے بارے میں شکایات آئیں تو وزیراعظم نے توقف کیے بغیر خود فیصلہ کیا کہ کسے کونسا عہدہ دیا جائے۔ معیشت کے میدان میں البتہ مشورے ماننے پڑے۔
اپریل میں دورہ ایران کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ایرانی صدر حسن روحانی کے ہمراہ تہران میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان اور ایران کو اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔ ایک اعلیٰ سرکاری افسر کو وزیراعظم کا یہ بیان ناگوار گزرا اوراس نے وفد کے کچھ وزرا کے سامنے اس کا اظہار بھی کردیا۔ وزیر اعظم کو پتہ چلا توکچھ عرصے میں اس افسر کا بستر بھی گول کردیا گیا اور اس کی جگہ وزیر اعظم نے اپنی پسند کا افسر تعینات کردیا۔
اپوزیشن جماعتوں نے مل کرچیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تو ابتدا میں وزیر اعظم عمران خان صادق سنجرانی کو بچانے کے لیے سنجیدہ نہ تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایک طاقتور پرزے نے انہیں احساس دلایا کہ جناب آج اپوزیشن سنجرانی کو ہٹانے میں کامیاب ہو گئی تو کل اسپیکر قومی اسمبلی اور پرسوں آپ پر وار کرے گی۔ وزیراعظم کو بات سمجھ میں آئی اور انہوں نے اشارہ دے دیا۔ نتیجے میں سنجرانی کی واضح ناکامی یکایک کامیابی میں بدل دی گئی۔
پنجاب میں بڑے بڑے جلسوں کے ذریعے عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی مریم نواز کو ایک اجلاس کے دوران وزیراعظم کی طرف سے ’’پھولن د یوی‘‘ کا خطاب دیا گیا اور ساتھ ہی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کرد یے گئے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور مریم نواز کو نیب نے چوہدری شوگر ملز کیس میں لاہور سے گرفتار کر لیا۔
لیکن انگریزی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ پاور انسان کو کرپٹ کرتا ہے اور بھرپور پاور مکمل طور پر کرپٹ کر دیتا ہے۔
اس وقت اگر حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو طاقت کے نشے میں چور اس حکومت کی احتساب پالیسی تین چار بنیادی جہتوں پر مشتمل ہے۔ مخالف سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات ڈھونڈنے میں ہمارے دوست اور وزیراعظم کے شرلک ہومز جناب بیرسٹر شہزاد اکبر دن رات کام کررہے ہیں۔ ان مقدمات کی روشنی میں نیب گرفتاریاں عمل میں لارہی ہے اور کچھ خدمات وزیرداخلہ جناب بریگیڈِئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں پاک فوج وزیراعظم عمران خان کو مکمل طورپر تعاون فراہم کررہی ہے۔
خان اور باجوہ ایک ساتھ: سی آئی اے کے لیے مشکل یا آسانی؟
پاکستانی آرمی چیف باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع
لیکن اگر تاریخ کوئی پیمانہ ہے تو ہرعروج کو زوال ہے۔ اسی اصول کی روشنی میں یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ مکمل اختیارات کے حامل وزیر اعظم عمران خان آگے جا کر خود بھی تبدیلی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان کی طاقت کمزوری میں بدلتی جائے گی اور ان کے موقع پرست دوست انہیں چھوڑتے جائیں گے۔
اسی لیے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع وزیراعظم عمران خان کی بطور وزیر اعظم پانچ سال مکمل کرنے کی ضمانت نہیں ہے۔ بعض لوگ دونوں کو ایک ہے سکے کے دو رُخ قرار دیتے ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔
میرے خیال میں رواں سال کے آخر تک کچھ حلقے وزیراعظم کے بارے میں اپنی سوچ تبدیل کریں گے۔ وقت آگے پیچھے ہوسکتا ہے لیکن تاریخ کا فیصلہ آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ تبدیلی روکنےکے لیے عمران خان کے پاس کارکردگی ہی واحد راستہ ہے جو فی الحال کہیں نظر نہیں آرہی۔