1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وزیر اعظم مودی کی نفرت انگیز بیان بازی سود مند یا نقصان دہ؟

3 مئی 2024

بھارت میں جاری عام انتخابات کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی اپنی پرجوش تقریروں کی وجہ سے ناقدین کے نشانے پر ہیں۔ ناقدین ان تقریروں کو زیادہ ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھارتی سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش کے طورپر دیکھتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4fT0y
وزیر اعظم نریندر مودی اپنی پرجوش تقریروں کی وجہ سے ناقدین کے نشانے پر ہیں
وزیر اعظم نریندر مودی اپنی پرجوش تقریروں کی وجہ سے ناقدین کے نشانے پر ہیںتصویر: Vishal Bhatnagar/NurPhoto/picture alliance

مسلمانوں کے خلاف وزیر اعظم نریندر مودی کی حالیہ تقریر کو مختلف حلقوں نے افسوس ناک قرار دیا ہے۔ مغربی ریاست راجستھان کے بانسواڑہ میں گزشتہ ہفتے ایک بہت بڑی انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ہندو ووٹروں میں پولرائزیشن کے لیے کانگریس کو ایک سے زائد محاذوں پر نشانہ بنایا۔

بھارت کے الیکشن اس مرتبہ زیادہ اہم کیوں؟

بھارتی انتخابات: نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟

وزیر اعظم مودی نے دعویٰ کیا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے، تو اپوزیشن بھارت کی دولت کو ''دراندازوں‘‘ میں تقسیم کر دے گی۔ ان کے اس اشتعال انگیز بیان کو اکثریتی ہندو ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی ان کی پارٹی کی ایک بڑی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ہندو مسلم کشیدگی کا استعمال انتخابی مہم میں بطور ہتھیار

مودی نے مزید کہا، ''وہ (کانگریس) کہتے ہیں کہ اگر وہ اقتدار آئے تو ملک کی دولت پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ وہ آپ کی ساری دولت چھین لیں گے اور ان لوگوں میں تقسیم کر دیں گے، جن کے زیادہ بچے ہیں، جو درانداز ہیں۔ کیا آ پ کو یہ پسند ہے کہ آپ کی سخت محنت کی کمائی دراندازوں کو دے دی جانا چاہیے؟کیا یہ آپ کو منظورہے؟‘‘

اس بیان پر مسلمانوں میں ناراضی کے باوجود مودی نے چند دنوں بعد مغربی بنگال کے مالدہ اور بہار کے ارریہ میں انتخابی جلسوں میں اس بات کو زور شور سے دہرایا۔ سیاسی گفتگو اب ایک بار پھر ہندو مسلم تقسیم کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔

بھارتی انتخابات:تارکین وطن بی جے پی کے لیے کیوں اہم ہیں؟

بھارتی شہریت: متنازعہ قانون کا نفاذ، مسلمانوں کا سخت رد عمل

بہت سے ہندو ووٹروں کو مودی کی باتیں سچ لگتی ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ واقعی کانگریس ان کی دولت چھین کر مسلمانوں کو دے د ے گی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بیان بازی مودی کی پارٹی کی ہندو ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے کیونکہ بی جے پی کی قیادت ووٹنگ کے ابتدائی دو مرحلوں میں کم سے درمیانی سطح تک کے ووٹر ٹرن آوٹ اور حکومت مخالف جذبات سے بہت پریشان ہے۔

سینیئر سیاسی تجزیہ کار نیرجا چودھری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہو ئے کہاکہ ان کے خیال میں مودی کی تقریریں ممکنہ طورپر ووٹوں سے محرومی پر بی جے پی کی تشویش کی علامت ہیں۔

نیرجا چودھری کہتی ہیں، ''اس الیکشن میں ملک گیر دورے کے دوران میں نے پایا کہ یہ ہندو مسلم الیکشن نہیں ہے۔ لیکن پولنگ کی شرح کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے اپنی کوششیں بڑھا دی ہیں۔ ووٹروں کو جوش دلانے کے لیے انہوں نے سوچا ہے کہ کچھ کرنا ہی چاہیے، کچھ ایسا، جو بیانیے کا مرکزی موضوع بن جائے۔‘‘

بھارت: عام انتخابات اور مودی کے حلقہ، بنارس کی روداد

کیا مودی نے اپنی تقریرو ں سے انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزی کی؟

نریندر مودی کی تقریروں پر اپوزیشن رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے بڑھتے ہوئے اعتراضات نے لوگوں کی توجہ بھارتی الیکشن کمیشن کے وضع کردہ ضابطوں کی طرف مبذول کرا دی ہے، حالانکہ بھارت میں انتخابات کے نگران ادارے نے ان بیانات پر اب تک نہ تو کوئی تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی کوئی کارروائی۔

الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سیاست دان ''ذات اور فرقہ وارانہ جذبات‘‘ کی بنیاد پر ووٹروں سے اپیل نہیں کر سکتے اور نہ ہی ایسی مہم چلا سکتے ہیں جو برادریوں کے درمیان اختلافات کو بڑھائیں یا باہمی نفرت پیدا کریں یا تناؤ کا باعث بنیں۔

کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے مودی کے بیانات کو ''نفرت انگیز تقریر‘‘ اور ''اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی سوچی سمجھی چال‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں الیکشن کمیشن سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس تازہ ترین شکایت کا نوٹس لے اور نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف فوری طورپر کارروائی شروع کرے۔‘‘

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سیکرٹری سیتا رام یچوری نے ''فرقہ وارانہ جذبات اور نفرت کو بھڑکانے‘‘ کے لیے مودی کے خلاف سرکاری شکایت درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

نوے سے زیادہ سابق بیوروکریٹس نے بھی الیکشن کمیشن آف انڈیا کو شکایت بھیجی ہے کہ وہ اقلیتو ں کے خلاف دشمنی کو ہوا دینے والی فرقہ وارانہ تقاریر پر مودی کے خلاف کارروائی کرے اور ساتھ ہی متنبہ بھی کیا کہ اس طرح کے مزید بیانات سے آزادانہ اور منصفانہ رائے دہی اور رائے شماری کا ماحول متاثر ہو گا۔

کرکٹر یوسف پٹھان بھی سیاسی میدان میں اتر گئے

بی جے پی کا ہندو قوم پرست ایجنڈا

سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے پارٹی کے ہندو قوم پرست ایجنڈے پر عمل درآمد نے ملک میں مذہبی اقلیتوں کو الگ تھلگ کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے 210 ملین آبادی والے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی نفرت انگیز تقاریر اور تشدد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

سن 1989کے بعد سے ہی مودی کی جماعت بی جے پی کا بنیادی اصول ''ہندوتوا‘‘ رہا ہے، جو ایک سیاسی نظریہ ہے اور جو ہندو مت کی قدروں کو بھارتی معاشرے اور ثقافت کا سنگ بنیاد قرار دیتا ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی جارحانہ ہندوتوا پالیسیاں مذہبی اقلیتوں سے ''دوسر ے درجے کے شہریوں‘‘ جیسا سلوک کرتی ہیں۔

صحافی اور مصنفہ صبا نقوی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''مسلم مخالف بیان بازی بی جے پی کے سیاسی سفر کا حصہ ہے لیکن حالیہ الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران چیزیں اپنی ایک نئی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ''مہم شروع ہونے کے بعد سے مودی نے اپنی وزارت عظمیٰ کے کیریئر کی سب سے زیادہ متنازع ہندو مسلم تقریریں کی ہیں۔‘‘

صبا نقوی کہتی ہیں، ''چار جون کو جب ووٹوں کی گنتی ہو گی، ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ فرقہ وارانہ بیان بازی کو بڑھانے سے بی جے پی کو مدد ملی یا نقصان ہوا۔‘‘

سیاسی مبصر اور نیو یارک میں مقیم مصنف سلیل ترپاٹھی جیسے افراد جو انتخابات پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہیں نے کہا کہ بی جے پی کی ''مایوسی‘‘ نے اسے ہندو پولرائزیشن کے ایک پرانے فارمولے کو آزمانے پر مجبور کیا، جس میں بھارت پر مسلمانوں کے قبضے کا خوف دلایا جاتا ہے۔‘‘

ترپاٹھی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی خفیہ یا مخصو ص افراد کے لیے پیغام نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد تھا کہ یہ تمام بھارتیوں تک پہنچے۔ اس کا مقصد ہندوؤں میں خوف پیدا کرنا اور ہندوؤں کو جگانا ہے۔ ''یہ خطرنا ک اور واضح طور پر نفرت انگیز تھا۔‘‘

ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ نفرت انگیز بیان بازی ووٹروں کو کتنا متاثر کر سکے گی۔ ماضی میں پولرائزیشن کی کوششیں بی جے پی کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوئیں۔

ترپاٹھی کا کہنا تھا، ''مودی کی تقریر سے پتہ چلتا ہے کہ دس سال اقتدار میں رہنے کے بعد ان کی حکومت کی چالیں ختم ہو رہی ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ بی جے پی کے بنیادی ووٹر یعنی ناراض اور بنیاد پرست ہندو اسے چھوڑ کر نہ جائیں۔‘‘

ج ا/م م (مرلی کرشنن، نئی دہلی)

/dw/a-68970587