ٹرمپ یا ہیرس: چین کس کا حامی؟
2 نومبر 2024فی الحال یہ واضح نہیں کہ پانچ نومبر کے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ڈیموکریٹ امیدوار اور موجودہ نائب صدر کملا ہیرس چین کے حوالے سے کیا حکمت عملی اپنائیں گی؟ تاہم یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ان کی حکمت عملی بھی ان کے پیشرو صدر جو بائیڈن سے ہم آہنگ ہی ہو گی۔ البتہ، ہیرس اپنی ترجیحات یا نقطہ نظر میں کچھ معمولی تبدیلیاں بھی کر سکتی ہیں۔
ماہرین کا اسی صورتحال کے پیش نظر کہنا ہے کہ چین کے لیے یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ جنوری 2025 میں کون امریکی صدارت کا منصب سنبھالے گا۔
بیجنگ میں رینمن یونیورسٹی آف چائنا کے مرکز برائے امریکی مطالعات کے نائب ڈائریکٹر دیاؤ دامینگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک مسابقت انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گی۔
چین کے خلاف سخت حمکت عملی کا تسلسل
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ اور ہیرس دونوں نے ہی ایشیائی خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے اور تائیوان کے خلاف چینی جارحیت کا مؤثر جواب دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
وال اسٹریٹ جرنل کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو چین تائیوان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے پہلے دو مرتبہ سوچے گا کیونکہ صدر شی جن پنگ ان کی شخصیت اور انداز سے واقف ہیں۔
ٹرمپ نے معاشی محاذ پر تقریباً تمام ممالک کی درآمدات پر 10 سے 20 فیصد تک کی جامع محصولات جبکہ چین سے آنے والے اشیاء پر 60 فیصد یا اس سے زائد کی محصولات عائد کرنے کی بھی تجویز پیش کی ہے۔
ان کا دعوٰی ہے کہ ان اقدامات سے امریکی مصنوعات کی پیداوار میں بھی اضافہ ہو گا۔
دیاؤ دامینگ کے مطابق، "اگر وہ واقعی یہ محصولات عائد کرتے ہیں، تو چین یقینی طور پر اس کے جواب میں اقدامات کرے گا۔"
ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ بائیڈن کے ایجنڈے کو اپنی مخصوص ترجیحات کے مطابق جاری رکھیں گے، جو کہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔‘‘
ہیرس کی خارجہ پالیسی غیر واضح
انتخابی مہم کے دوران کملا ہیرس کی جانب سے چین کے حوالے سے کی جانے والی محدود گفتگو میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ وہ عالمی سطح پر چین کے مقابلے میں امریکہ کا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی کوشش کریں گی۔
دیاؤ کہتے ہیں کہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ صدارت ملنے کی صورت میں کملا ہیرس چین کے حوالے سے کیا اقدامات کریں گی؟
ان سے یہ بھی توقع ہے کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کی عائد کردہ پالیسیوں کو برقرار رکھیں گی، جس میں چینی مصنوعات پر محصولات عائد کرنا اور اہم سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات شامل ہیں۔
رواں برس ستمبر میں صدر بائیڈن نے کچھ چینی ساختہ مصنوعات پر محصولات میں اضافہ کرتے ہوئے برقی گاڑیوں پر محصول کی شرح 100 فیصد تک بڑھا دی تھی۔ یورپی یونین کی جانب سے بھی کچھ ایسے ہی اقدامات کیے جانے کے بعد بیجنگ نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ صدر بائیڈن نے چین کے ساتھ رابطے بحال کرنے کی کوشش بھی کی۔ انہوں نے سن 2023 میں کیلیفورنیا میں ایک سربراہی اجلاس کے موقع پر صدر شی جن پنگ کی میزبانی بھی کی۔
ستمبر کے دوران سنگاپور میں شنگریلا سکیورٹی سمٹ کے دوران امریکہ اور چین کی اعلٰی فوجی قیادت کے درمیان بات چیت ہوئی، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا راستہ کھلا رکھنا اور تنازعات کے حل کے لیے پرامن راستہ اختیار کرنا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ نے فلپائن، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت جیسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات اور شراکت داری کو بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔
بیجنگ کی جانب سے ٹرمپ کی ممکنہ حمایت
چینی تجزیہ کار اور بیجنگ کی سنگھوا یونیورسٹی کے سابق لیکچرر وو چیانگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی چین کے لیے فائدہ مند ہو گی، کیونکہ یہ امریکی جمہوریت کے اندر گہرے اختلافات کی علامت ہو گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''یورپ اور دیگر عالمی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے نتیجے میں، امریکہ عالمی سطح پر ایک مرتبہ پھر تنہائی کا شکار ہو جائے گا، جیسا کہ اس سے قبل ٹرمپ کے دور صدارت میں دیکھا گیا تھا۔‘‘
سابق صدر نے امریکی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہوئے کئی بین الاقوامی معاہدوں سے دستبرداری بھی اختیار کر لی تھی۔
ٹرمپ نے امریکہ کے اسٹریٹجک اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو ایک تجارتی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے، یورپ میں نیٹو اور ایشیا میں امریکی اتحادیوں، جیسے جنوبی کوریا اور جاپان، کی طرف سے دفاع میں مزید تعاون نہ کرنے پر اپنی حمایت واپس لینے کی دھمکی دی تھی۔
تاہم اٹلانٹک کونسل کے گلوبل چائنا ہب کی نان ریزیڈنٹ فیلو ایلزبتھ فرائینڈ لارس کہتی ہیں کہ ٹرمپ کی صدارتی مدت ختم ہونے کے بعد جغرافیائی منظر نامہ کافی غیر مستحکم ہو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے خارجہ پالیسی کے مشیروں کی جانب سے بھی ان پر دباؤ ہوگا کہ وہ امریکی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔
کیا ہیرس چین کے ساتھ تعلقات میں نرم رویہ اختیار کریں گی؟
لارس کے مطابق چینی رہنماؤں کے لیے ہیرس کی فتح خارجہ اور دفاعی پالیسی کے تناظر میں اہم ہو سکتی ہے کیونکہ وہ ممکنہ طور پر چین کے ساتھ تعلقات میں زیادہ نرم رویہ اپنائیں گی، جیسا کہ ٹرمپ کے علاوہ ماضی کے صدور نے کیا۔
تائیوان کے معاملے پر بھی نائب صدر کملا ہیرس بائیڈن کے مقابلے میں تائیوان کی فوجی حمایت کا کھل کر اظہار کرنے سے محتاط نظر آتی ہیں۔
لارس کہتی ہیں کہ اگر وہ چینی کیونسٹ پارٹی کی نمائندگی کر رہی ہوں تو وہ اس شخص کو ترجیح دیتیں، جو مذاکرات کے لیے آمادہ ہو۔
یوخن لی (ح ف / ع ا)