ٹرین نہر میں گرنے سے بارہ افراد ہلاک، حادثہ یا تخریب کاری؟
2 جولائی 2015بتایا گیا ہے کہ 80 سے زائد افراد کو اب تک پانی سے نکالا جا چکا ہے۔ یہ بدقسمت ٹرین جمعرات کی صبح سندھ کے علاقے پنوعاقل چھاؤنی سے فوجیوں اور اُن کے اہلِ خانہ کو لے کر کھاریاں کے لیے روانہ ہوئی تھی کہ دوپہر بارہ بجے کے قریب لوئرچناب نہر کا پل ٹوٹنے سے حادثے کا شکار ہو گئی۔
جائے حادثہ پر موجود امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ پانی میں ڈوبی ہوئی ایک بوگی میں لوگوں کے پھنسے ہونے کی صورت میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس ٹرین پر فوجی افسران اور اہلکار اپنے خاندانوں کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔
جائے حادثہ پر پاک فوج اور پاکستان ریلوے کی طرف سے اس وقت مشترکہ ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ پاک فوج کے جوان اور پاکستان نیوی کے غوطہ خور لاپتہ افراد کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ میڈیکل، مکینکل اور ٹیکنیکل ماہرین کو لے کر لاہور سے ایک امدادی ٹرین بھی جائے حادثہ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ امدادی سرگرمیوں میں سہولت کے لیے نہر کو پیچھے ہیڈ خانکی سے بند کر دیا گیا ہے۔ اس وقت فوجی اہلکاروں نے جائے حادثہ کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اعلٰی سول اور فوجی حکام بھی جا ئے حادثہ پر موجود ہیں۔
اس حادثے میں بچ جانے والے ایک عینی شاہد نے صحافیوں کو بتایا کہ جیسے ہی ٹرین پل کے اوپر پہنچی، اُس کا انجن اچانک تیزی سے ہلتا ہوا محسوس ہوا اور پھر ٹرین نہر میں گر گئی۔
ریلوے حکام کے مطابق اس وقت وزیر آباد فیصل آباد ریلوے لائن پر ٹریفک معطّل ہے، ریسکیو کے بعد تعمیر و مرمت کا کام شروع ہو سکے گا۔ اس دوران کراچی سے راوالپنڈی جانے والی ٹرینوں کو متبادل راستوں سے گذارا جائے گا۔
جائے حادثہ پر امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے پاکستان کے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والا پل ہر طرح سے درست حالت میں تھا، اس لیے اس حادثے میں تخریب کاری کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اس حادثے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔ ان کے بقول اس سانحے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ آج رات تک لیکن حتمی رپورٹ اگلے بہتّر گھنٹوں تک سامنے آ سکے گی۔ انہوں نے بتایا کہ فوجی حکام بھی اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ان کے بقول اس بدقسمت ٹرین کے اسسٹنٹ فائرمین کو تو ریکور کر لیا گیا ہے لیکن اس ٹرین کے ڈرائیور کو ابھی تک نہر سے نہیں نکالا جا سکا۔
پاکستان ریلویز کے ترجمان رؤف طاہر نے رابطہ کرنے پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ متاثرہ ٹرین میں چھ مسافر بوگیاں اور 21 سامان والی بوگیاں تھیں۔ حادثے کے نتیجے میں انجن اور چار بوگیاں 15 فٹ گہری نہر میں جا گریں۔ ایک بوگی تو مکمل طور پر پانی میں ڈوب گئی تھی جبکہ بقیہ بوگیاں جزوی طور پر نہر میں ڈوب گئیں۔ رؤف طاہر کے مطابق حادثے کا باعث بننے والے پل پر سے آدھ گھنٹہ پہلے ’پاکستان ایکسپریس‘ نامی ٹرین بحفاظت گذری تھی۔ ان کے بقول اس سال جنوری میں پلوں کی معمول کی انسپکشن کے موقع پر اس پل کی حالت کو تسلی بخش قرار دیا گیا تھا۔
پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اس حادثے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو امدادی سرگرمیوں میں بھرپور مدد کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پاکستان کے تمام سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے اس سانحے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔