پابندی نہیں تو پی ٹی آئی میڈیا سے غائب کیوں ہے؟
4 جنوری 2024پاکستان میں سیاست دان، انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافیوں کی تنظیمیں یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ اگر پیمرا نے یہ پابندی نہیں لگائی تو پھر پی ٹی آئی میڈیا پہ نظر کیوں نہیں آرہی۔ کچھ حلقے اس کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
پیمرا کے وکیل ہارون دوگال نے یہ بیان عمران خان کی طرف سے دائر کی گئی ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران دیا۔ عمران خان نے گزشتہ برس پیمرا کے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس کے مطابق پیمرا نے ٹیلی ویژن چینلز کو ان کی تقاریر اور میڈیا سے بات چیت کو نشر کرنے پر پابندی لگائی تھی۔ یہ پابندی عمران خان کی اس تقریر کے بعد لگائی تھی جس میں انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
مقدمے کی سماعت جسٹس شمس محمود مرزا نے کی اور دوران سماعت انہوں نے پیمرا پہ زور دیا کہ وہ ٹی وی چینلز پر دباؤ ڈالنے سے اجتناب کرے۔
پی ٹی آئی کی میڈیا پر انتہائی کم موجودگی کیوں؟
اس بیان کے بعد ملک کے کئی حلقوں میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی کوریج پاکستان کے قومی دھارے کے چینلز پر نمایاں کیوں نہیں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کوریج گزشتہ کچھ مہینوں میں بہت کم ہوئی ہے گیلپ پاکستان کے انچارج بلال گیلانی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، '' ہم ٹاپ 10 ٹاک شوز کے حوالے سے ڈیٹا جمع کر رہے ہیں اور گزشتہ کئی مہینوں میں ان شوز میں پی ٹی آئی کی موجودگی بہت تیزی سے کم ہوئی ہے۔‘‘
کون کنٹرول کرتا ہے؟
خیال کیا جاتا ہے کہ میڈیا کو ملک کے طاقتور حلقے کنٹرول کرتے ہیں اور وہ جب چاہتے ہیں اور جس رہنما کو چاہتے ہیں اس پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی اس لیے ٹی وی اسکرین پر نظر نہیں آتی کیونکہ ان پر پابندی ایسے لوگوں نے لگائی ہے جن کو نا کہنا میڈیا مالکان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پیمرا لاکھ کہتا رہے لیکن عمران خان پر پابندی بھی انہی لوگوں نے لگائی ہے جنہوں نے ماضی میں آصف علی زرداری، الطاف حسین، منظور پشتین، نواز شریفرااور دوسرے لوگوں پہ پابندی لگائی اور وہ میڈیا سے غائب ہو گئے۔‘‘
غیر مرئی قوتیں
پاکستان تحریک انصاف عمران خان پر غیر اعلانیہ پابندی کی ذمہ دار طاقتور حلقوں کو قرار دیتی ہے۔ عمران خان کے معتمد خاص فیصل شیر جان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پیمرا غیر مرئی قوتوں سے ہدایات لیتی ہے۔ یہ واحد ریگولیٹری اتھارٹی ہے جو ابھی بھی وزارت اطلاعات کے ذریعے اپنے اوپر والوں کو رپورٹ کرتی ہے۔ دوسری تمام ریگولیٹری اتھارٹیز کیبنٹ ڈویژن کے ذریعے اپنے اعلی افسران کو رپورٹ کرتی ہیں۔‘‘
فیصل شیر جان کے مطابق پیمرا میں وزارت اطلاعات کے آفیسرز بھرے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول،''جن کو کسی بھی قسم کی کوئی خود مختاری یا آزادی حاصل نہیں ہے اور یہ صرف میں نہیں کہہ رہا بلکہ سپریم کورٹ نے بھی ایک سے زائد کیسز میں اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے۔‘‘
’پیمرا حکم کی بجا آوری کرتی ہے‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ پیمرا کو جو حکم دیا جاتا ہے وہ اس کی بجا آوری کرتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اسے حکم دیا گیا کہ پی ٹی آئی کو اسکرین سے غائب کر دیا جائے تو پابندی نہ ہونے کے باوجود بھی پی ٹی آئی اسکرین سے غائب ہے۔‘‘
فوزیہ کلثوم رانا کے مطابق سب کو پتہ ہے کہ پیمرا کو ہدایات کہاں سے آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''یقینا عمران خانجب تقریر کرتے تھے تو کبھی وہ نیوٹرل کو جانور کہتے تھے۔ کبھی میر صادق اور میر جعفر کی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور اسٹبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ تو یہ بات واضح ہے کہ ان کو کسی بھی پابندی نہ ہونے کے باوجود اگر اسکرین پہ نہیں دکھایا جا سکتا تو وہ کون لوگ ہیں جو انہیں اسکرین پہ دکھانا نہیں چاہتے۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر پرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ ملکی میڈیا کو اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وہ چینلز کے مالکان کو ایک فون کروا دیتے ہیں اور مالکان ایک فون کال پر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔‘‘
کیا بیان کے بعد حالات بدلیں گے؟
ملک کے کچھ حلقوں میں یہ بھی بحث ہو رہی ہے کہ آیا پیمرا کے اس بیان کے بعد پی ٹی آئی کو میڈیا پر جگہ ملے گی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ انہیں جگہ ملنا اب بھی مشکل ہے۔ اسد بٹ کے مطابق کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ پی ٹی آئی کو میڈیا پر لایا جائے۔ ''لہذا پیمرا کے بیان کے باوجود بھی پی ٹی آئی کے لوگوں کو قومی چینلز پر جگہ نہیں دی جائے گی۔‘‘
ںاصر زیدی کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ بات بھی اسٹشلمنٹ طے کرتی ہے کہ کس ٹاک شو میں کون سے لوگ جائیں گے۔ '' تو ایسے میں پی ٹی آئی کے لوگوں کی کیسے جگہ بنے گی۔‘‘
تحقیقات کا مطالبہ
کچھ صحافتی اور انسانی حقوق کے حلقے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ پیمرا کے اس بیان سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوگی اور سوال کریں گے کہ، ''اس ملک میں آئینی اور قانونی طریقے سے مختلف اداروں کو کون چلا رہا ہے۔ ہماری سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ وہ اس معاملات کی پوری تحقیقات کرائے۔‘‘
ناصر زیدی بھی اس مطالبے کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب پیمرا نے یہ پابندی نہیں لگائی تو عوام کو پتہ چلنا چاہیے کہ یہ پابندی کس کے کہنے پہ لگی اور کیوں لگی ۔ زیدی کے بقول، ''جو اس طرح کی پابندی لگانے میں ملوث ہے ان کو قانون کے مطابق سزا بھی دی جانی چاہیے۔‘‘
پیمرا نے تاہم ڈی ڈبلیو کے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔