پابندیوں میں نرمی، کیسز میں اضافہ
11 مئی 2020عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں پہلی مئی سے نئے کیسز کے رجحان میں تیزی نظر آئی ہے۔ صرف پچھلے ایک ہفتے کے دوران ملک میں دس ہزار نئے کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ دو سو اموات بھی ہوئیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس کی بڑی وجہ اب لوکل ٹرانسمشن ہے اور جوں جوں ٹیسٹنگ بڑھائی جا رہی ہے، مزید نئے کیسز سامنے آئیں گے۔
سب سے زیادہ رسک پر ملک بھر کے ہسپتالوں میں کام کرنے والا طبی عملہ ہے، جہاں پچھلے ایک ہفتے کے اندر ڈھائی سو نئے کیسز سامنے آئے۔ ڈاکٹروں کی تنظیموں کے مطابق کورونا وبا کے دوران اب تک ساڑھے سات سو سے زائد ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل اسٹاف میں وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے، جبکہ گیارہ اموات ہو چکی ہیں۔
ملک میں پیر تک مجموعی کیسز کی تعداد اکتیس ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے جبکہ ہلاکتیں چھ سو ساٹھ سے بڑھ چکی ہے۔
پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کی حامی ہے۔ اتوار کو وفاقی وزیر اسد عمر نے امید ظاہر کی کہ ملک میں کورونا وائرس تیزی سے نہیں پھیلے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اب "اسمارٹ لاک ڈاؤن" کی طرف جا رہی ہے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے مخصوص علاقوں میں موجود "ہاٹ اسپاٹس" پر توجہ دی جائے گی۔
وفاقی حکومت نے نو مئی سے حفاظتی قوائد و ضوابط کے تحت اسلام آباد میں کئی بازار کھولنے کی اجازت دے دی تھی۔ تاہم پچھلے دو روز کے دوران آنے والے اطلاعات کے مطابق، اکثر مقامات پر شاپنگ کے دوران دوکان داروں اور صارفین نے حفاظتی ضوابط کو نظرانداز کردیا۔
صوبہ سندھ میں حکومت نے اتوار کو کراچی کی تاجر تنظیموں سے مشاورت کے بعد ایک اعلامیے میں کہا کہ ریٹیل دوکانیں ہفتے میں چار دن پیر تا جمعرات صبح چھ سے شام چار بجے تک کھلی رہ سکتی ہیں۔
تاہم سندھ حکومت نے واضح طور پر کہا کہ بڑے شاپنگ مال، تعلیمی ادارے، سرکاری دفاتر، ہوٹل، ریستوران، شادی ہال، سینما اور تمام قسم کے جلسے جلوسوں پر بدستور پابندی رہے گی۔
پاکستان میں کوئی دو ماہ بعد آج قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ہو رہا ہے جبکہ سینٹ کا اجلاس منگل کو طلب کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اسپیکر اسد قیصر خود قرنطینہ میں ہیں۔ وہ اور ان کے گھر والے اٹھائیس اپریل کو کورونا وائرس سے متاثرہ پائے گئے تھے۔ پچھلے چند روز میں چند اراکین اسمبلی اور قومی اسمبلی کے عملے میں بھی وائرس کی تشخیص ہوئی ہے، جس کے باعث منتخب نمائندوں میں اسمبلی کا اجلاس منعقد کرانے پر تحفظات ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ اس اجلاس میں معمول کی کارروائی نہیں ہوگی اور صرف کورونا کے بحران پر بات ہوگی۔
(ش ج، ع ق)